ایمس کی طرف سے ذات و مذہب پوچھے جانے پر ڈاکٹروں میں سخت ناراضگی
ایمس فیکلٹی سیل نے گزشتہ ہفتہ ڈیٹا بیس تیار کرنے کے مقصد سے تمام ڈاکٹروں سے ایک فارم پُر کروایا، جس میں نام، عمر، تنخواہ اور تقرری کی تاریخ کے ساتھ مذہب اور ذات کا بھی بیورہ طلب کیا گیا ہے۔
قومی راجدھانی دہلی کے مایہ ناز اسپتال آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کی انتظامیہ کو اپنے مریضوں کے بہتر علاج سے زیادہ اپنے ڈاکٹروں کے مذہب اور ذات کی تفصیل معلوم کرنے میں دلچسپی ہے۔ یہ معاملہ منظر عام پر اس وقت آیا جب ایک حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے ایمس کے اعلیٰ ڈاکٹروں نے فیکلٹیز سے ایک ایسا فارم پُر کر کے دینے کو کہا جس میں دیگر تفصیلات کے ساتھ ان کی ذات اور مذہب کی تفصیل بھی پُر کرنی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ایمس فیکلٹی سیل نے گزشتہ ہفتہ اپنے تمام ڈاکٹروں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے مقصد سے ایک صفحہ کا فارم پُر کرایا ہے۔ اسے لے کر کئی سینئر ڈاکٹروں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ فارم میں نام، عمر، تنخواہ اور تقرری کی تاریخ کے علاوہ ذات اور مذہب کی بھی معلومات طلب کی گئی ہے۔ خبروں کے مطابق اس حوالہ سے جب ایمس کے ڈائریکٹر سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے اس طرح کے کسی بھی فارم کی اطلاع ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کسی بھی سینئر ڈاکٹر سے اس کی ذات و مذہب کی معلومات نہیں پوچھی جاتی، اگر ایسا کوئی فارم تقسیم کیا گیا ہے تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
حالانکہ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر ڈاکٹر نے یہ قبول کیا کہ انہیں ذات و مذہب کی تفصیل پوچھنے کے حوالہ سے فارم موصول ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فارم حیران کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آخر وہ اسپتال میں ڈاکٹروں کی ذات اور مذہب پر بات کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ داخلہ کے وقت بھی اکثر طلبا اسی طرح کے سوال کھڑے کرتے ہیں۔
وہیں اطلاعات کے مطابق ایمس کی فیکلٹی سیل نے اس طرح کے فارم کی تصدیق کرنے سے منع کر دیا ہے اور اعتراف کیا کہ ذات اور مذہب والا سوال غلطی سے جڑ گیا تھا۔ فیکلٹی سیل میں انتظامی کام کاج کے سربراہ ڈاکٹر سنجے آرایہ نے کہا، ’’ تمام سینئر ڈاکٹروں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے لئے یہ فارم بھیجے گئے تھے، اس میں ذات اور مذہب پوچھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، فارم میں اس طرح کے سوال غلطی سے جڑ گئے ہیں۔
حالانکہ ایمس کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم سی مشرا نے اس معاملہ پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایمس جیسے مقبول ادارے کو اس طرح کی چیزوں سے دور رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلات کے نام پر ڈاکٹروں سے اس طرح کے سوالات نہیں پوچھے جانے چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔