مابعد می ٹو: لفظوں کے جادوگر ایم جے اکبر درپیش آزمائش کو دھوئیں میں اڑا پائیں گے

ایم جے اکبر نے مودی حکومت سے استعفی دے دیا ہے اور اب وہ ان خواتین سے قانونی طور پر نبرد آزما ہیں، جن کا ان پر1990 کی دہائی میں وقفہ وقفہ سے جنسی استحصال کا الزام ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہل: ’’بنگال عورتوں کی جادوگری اور مردوں کے میٹھے دانت کے لئے مشہور ہے، بہاری دانت بہرحال مختلف ہوتے ہیں‘‘۔ لفظوں کا یہ تانا بانا کسی اور نے نہیں بلکہ ایم جے اکبر نے بنُا ہے جو خود بھی بہاری ہیں۔یہ الفاظ ان کی بڑے پیمانے پر فروخت ہونے والی غیر فکشن کتاب ’بلڈ برادرس۔ اے فیملی ساگا‘سے ماخوذ ہیں۔

انتہائی پذیرائی حاصل کرنے والی اس کتاب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ ایم جے اکبر کی فیملی خاص طورپر ان کے دادا کی ایک سے زیادہ رخ پر عکاسی کرتی ہے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج وہی عورتیں ایک ایسے مثالی ایڈیٹر کے زوال کی ذمہ دار ہیں جواپنے الفاظ کے اندر جادوئی طاقت رکھتے تھے۔

ایم جے اکبر نے مودی وزارت سے استعفی دے دیا ہے اوراب وہ ان خواتین سے قانونی طور پر نبرد آزما ہیں جن کا ان پر1990 کی دہائی میں وقفہ وقفہ سے جنسی استحصال کا الزام ہے۔ اس زمانہ میں وہ ’دی ایشین ایج‘ کے بااختیار ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔

شورش زدہ ناگا لینڈ میں جب بدعنوانی زندگی کا حصہ بن گئی تھی اور اکبر وہاں بدعنوانی کے خلاف خوب لکھتے تھے۔ان دنوں انہوں نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’ناگالینڈ میں حکومت (ٹھیکہ داروں کو)ان کاموں کی اجرت ادا کرتی ہے جو (مابعد زندگی ملنے والی) جنت میں کی جارہی ہے۔

ان کے اس طنز کا رخ ان زبردست ٹھیکوں کی طرف تھا جو کسی کام کے بغیر دیئے گئے تھے اوروہ بھی ایک ایسی ریاست میں جہاں کے لوگ مذہبی سمجھے جاتے ہیں۔

اکبر کو جو کانگریس کے ترجمان ہوا کرتے تھے اور آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور چندر شیکھر سے بہت قریب سمجھے جاتے تھے، 2016میں وزیر اعظم نریندر مودی کی وزارتی کونسل میں شمولیت پر کسی کو کوئی حیرانی اس لئے نہیں ہوئی تھی کہ وہ کانگریس کے سخت ترین ناقد بن گئے تھے۔

ماضی میں مودی اور خاص طور پر 2002کے فسادات کے سخت ناقداکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خود کو بی جے پی قیاد ت کاحصہ بننے کے لئے اس وقت خود کوتیار کیا جب 2015میں عدم رواداری پر بحث کی انتہا کے دوران انہوں نے راہل گاندھی کو’’ہندوستانی سیاست کا بگڑا ہو ا بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اس وقت گاندھی کانگریس کے نائب صدر ہوا کرتے تھے۔

اکبر نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی پر کانگریس کی نکتہ چینی پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ ’’کچھ تو شرم کرو۔۔۔ایک طرف ہمارے پاس ایک ایسا وزیر اعظم ہے جو اپنی ماں کو بہت پیارا ہے دوسری طرف ایک ماں ہے جس کی اپنے بیٹے کے لئے اندھی محبت پارٹی کو تباہ کرچکی ہے ، اب ملک کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔

واضح رہے کہ اکبر بوفورس تنازعہ میں راجیو گاندھی کا دفاع کرتے تھے اورپارٹی کے ترجمان بنادیئے گئے تھے لیکن نرسمہاراؤ کے زمانے میں ان کے ساتھ وہ نباہ نہیں کرپائے اورصحافت کی طرف لوٹ گئے۔

اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ ایم جے اکبر بہترین قلم کار ہیں،جنہوں نے ’نہرو:دی میکنگ آف انڈیا، کشمیر :بیہائنڈ دی ویل ، رائٹ آفٹر رائٹ اور انڈیا: دی سیج ودن ‘ جیسی کتاب لکھیں۔

دیوآنند کی فلموں پر اپنی آراء ظاہر کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے لکھا تھا کہ بالی ووڈ کا یہ اداکارحریت پسند طبیعت کا مالک تھا جس نے ’’ہمارے عہد کو محبت اور غیر ازدواجی تعلق کے حوالے سے اپنا پہلا خوبصورت موضوع دیا‘‘۔

ایم جے اکبر نے ایک مقبول نغمہ ’’میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلاگیا‘‘ کے حوالے سے بھی خامہ فرسائی کی ہے جس میں انہوں نے اس اضافہ سے بھی کام لیا کہ ’’جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا‘‘۔

ٹھیک ہے، اب وقت آگیا ہے کہ لفظوں کا یہ جادوگر اپنے ہی فلسفہ اور سچ کا سامنا کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2018, 5:09 PM