’پھٹی جینس‘ کے بعد اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کا ایک نیا متنازعہ بیان آیا سامنے

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے کچھ دن پہلے لڑکیوں کے ’پھٹی جینس‘ پہننے پر اعتراض کیا تھا، اور اب انھوں نے ایک نئے متنازعہ بیان میں کہا ہے کہ ’’زیادہ راشن چاہیے تھا تو زیادہ بچے پیدا کرتے۔‘‘

تیرتھ سنگھ راوت، تصویر یو این آئی
تیرتھ سنگھ راوت، تصویر یو این آئی
user

تنویر

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کو وزیر اعلیٰ بنے کچھ ہی دن ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خوب سرخیوں میں رہ رہے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب انھوں نے لڑکیوں کی ’پھٹی جینس‘ پہننے پر اعتراض ظاہر کیا تھا اور اس پر شروع ہوا ہنگامہ اب بھی جاری ہے، لیکن اس درمیان انھوں نے ایک نیا متنازعہ بیان دے دیا ہے۔ دراصل اتوار کے روز رام نگر میں ایک جلسہ عام کے دوران تیرتھ سنگھ راوت نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مدد کی شکل میں جو اناج تقسیم کیا اس کا فائدہ 20 اراکین کی فیملی کو زیادہ ہوا جب کہ دو اراکین کی فیملی کو اس کا اتنا فائدہ نہیں ملا۔ اس لیے دو اراکین کی فیملی 20 اراکین والی فیملی سے حسد کرتی ہے۔

اپنے اس بیان کی وجہ سے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کو زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈران تو انھیں برا بھلا کہہ ہی رہے ہیں، عوام میں بھی ان کی شبیہ انتہائی خراب ہو گئی ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق کووڈ-19 کے پھیلاؤ کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے سبب مرکزی حکومت نے راشن دینے کا اعلان کیا تھا جس کے سبب لوگوں کو فی یونٹ پانچ کلو راشن دیا گیا۔ جن کے 20 بچے تھے اس کے پاس ایک کوئنٹل راشن پہنچا اور جس کے پاس دو بچے تھے اس کے پاس صرف 10 کلو گرام پہنچا۔ اسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے تیرتھ سنگھ راوت نے بیان دیا کہ ’’اس میں قصور کس کا ہے؟ اگر 20 بچے پیدا کیے ہوتے تو ایک کوئنٹل ملتا، 2 بچے کیے تو 10 کلو ملا۔ اب اس میں حسد کس بات کا ہے۔ زیادہ راشن کے لیے زیادہ بچے کرنے چاہیے تھے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ گزشتہ منگل کو ایک پروگرام کے دوران وزیر اعلیٰ نے پھٹی جینس پہننے کو لے کر ایک بیان دیا تھا جو خوب سرخیوں میں رہا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’تہذیبوں کی کمی کے سبب نوجوان عجیب و غریب فیشن کرنے لگے ہیں اور گھٹنوں پر پھٹی جینس پہن کر خود کو بڑے باپ کا بیٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی کہا تھا کہ ’’اس فیشن میں لڑکیاں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اگر لڑکیاں خود پھٹی جینس پہن رہی ہیں تو وہ اپنے بچوں کو کیا تہذیب دیں گی؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔