نوح تشدد کے بعد بھائی چارے کی کمان جاٹوں کے ہاتھ میں، کئی ریاستوں میں مرتب ہوں گے گہرے اثرات
جاٹوں نے نہ صرف خود کو جھگڑے سے الگ کیا بلکہ بے حد بلند آواز میں تشدد کے خلاف ہریانہ کی برسراقتدار پارٹی بی جے پی کی مذمت کی۔
ہریانہ میں ایک چوتھائی آبادی صرف جاٹ ہے۔ نوح تشدد کے بعد جاٹوں نے جس طرح کا رد عمل دیا ہے، وہ ایک مثال ہے۔ جاٹوں نے نہ صرف خود کو جھگڑے سے علیحدہ کیا بلکہ بے حد بلند آواز میں تشدد کے خلاف ہریانہ کی برسراقتدار پارٹی بی جے پی کی تنقید کی۔ جاٹوں کے اس رخ کو ہریانہ، راجستھان اور مغربی اتر پردیش سے بھی حمایت ملی اور جاٹ اکثریتی علاقوں میں نوح تشدد کو لے کر ایک خاص رجحان کو توڑنے کا کام کیا گیا۔ جاٹوں کے اس رخ کے بعد بی جے پی میں بہت زیادہ بے چینی ہے۔ بے حد خاص بات یہ ہے کہ جاٹوں نے اس تشدد کے سیاسی اسباب کی مخالفت وسیع پیمانے پر کی ہے۔ اس وجہ سے راجستھان کے بھرت پور سے یوپی کے مظفر نگر تک نوح تشدد کی 'کاٹھ کی ہانڈی' چڑھ نہیں پائی ہے۔
ہریانہ میں 25 فیصد آبادی والے جاٹ ریاست کی سیاست کے قائد رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے جاٹوں کی سیاست اور نمائندگی کو کمزور کرنے کا کام کیا ہے۔ حالانکہ ہریانہ کی بی جے پی حکومت میں دُشینت چوٹالہ نائب وزیر اعلیٰ ہیں، لیکن نوح تشدد کے بعد ان کے بیانات میں بھی حکومتی نظام کی کمزوری کو نشان زد کیا گیا ہے۔ ہریانہ ریاست میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخاب کو لے کر اس رد عمل کو کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ نوح کے رہنے والے رمضان خان کہتے ہیں کہ اس افسوسناک جھگڑے میں ایک طرف جہاں سرکاری حمایت صاف دکھائی دیتی ہے، وہیں دوسری طرف جاٹوں کے رخ نے کافی مثبت سمت دی ہے۔ یہ صاف ہے کہ بجرنگ دل کے لیڈران کے دھمکانے، گالی گلوچ کرنے اور شوبھا یاترا میں اسلحہ لے کر چلنے کے سبب حالات بدتر ہوئے۔ میوات ایک فرقہ وارانہ خیر سگالی کی زمین ہے۔ ہم سب سے بڑے محب وطن ہیں، ہمارے آبا و اجداد نے رانا سانگا کی طرف سے بابر سے لڑائی لڑی تھی۔ یہاں تشدد مونو مانیسر کے اعلان کے بعد بھڑکا، اس کی گرفتاری ہونی چاہیے تھی۔
رمضان خان کہتے ہیں کہ اس افسوسناک واقعہ کے بعد جاٹوں نے جس طرح کا رد عمل دیا، اس کا مسلم سماج میں بے حد اچھا پیغام گیا ہے۔ تمام کھاپ پنچایتوں میں مسلمانوں کے تئیں مثبت باتیں ہوئی ہیں۔ ہم جاٹوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے سچائی اور حق کا ساتھ دیا۔ ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جاٹوں نے ہمیں اپنا مقروض بنا دیا ہے۔ آج کے وقت میں سچ بولنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جاٹوں کے رخ سے نہ صرف میواتی سماج میں ہمت ملی بلکہ ہریانہ جلنے سے بھی بچ گیا۔ جاٹوں کا یہ رخ تاریخ میں درج ہوگا۔ پورا واقعہ ایک سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے اور جاٹوں نے اس سازش کا گرہ کھولنے کا بھی کام کیا۔
صرف ہریانہ میں نہیں پڑوسی ریاست راجستھان میں بھی بہت بڑی تعداد میں جاٹ ہیں۔ یہاں ہنومان گڑھ، گنگا نگر، بیکانیر، چورو، جھنجھنو، ناگور، سیکر، جودھپور، بھرت پور جیسے اضلاع میں جاٹ بڑی تعداد میں ہیں۔ شیخاوٹی علاقہ جاٹ اکثریتی علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں 31 اراکین اسمبلی جاٹ منتخب کیے گئے تھے۔ میوات کا ایک حصہ راجستھان میں بھی آتا ہے اور یہاں سے زاہدہ کاما اور واجب علی رکن اسمبلی ہیں، اور حکومت میں شامل ہیں۔ واجب علی بی ایس پی سے انتخاب جیتے تھے اور بعد میں کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ ہریانہ میں جاٹوں کے رخ کے بعد یقینی طور پر اس کا راجستھان پر اثر پڑنا طے ہے۔ راجستھان واقع گنگا نگر کے پون کلہری کہتے ہیں کہ جاٹ ذہنی طور پر بے حد پختہ ہیں اور سب سمجھتے ہیں۔ بی جے پی بٹوارے کی سیاست کر رہی ہے۔ ہریانہ کے جاٹوں نے جھگڑے سے خود کو دور کر کے اپنے بچوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچا لیا۔ حال کے دنوں میں جاٹوں کو کھلنایک بنا کر پیش کرنے والے بی جے پی کے لوگ آج ان سے کس منھ سے مدد مانگ رہے ہیں۔ راجستھان کے جاٹوں میں بھی ہریانہ کی طرح بی جے پی کے تئیں غصہ ہے۔ وہ ہریانہ میں جاٹوں کے رخ اور کھاپ پنچایت کے فیصلوں کا استقبال کرتے ہیں۔
نوح تشدد کے بعد ہریانہ کے دھنگھڑ کھاپ پنچایت کی سب سے زیادہ تعریف ہو رہی ہے۔ اس کھاپ کے چودھری ماسٹر اوم پرکاش نے سب سے پہلے جاٹوں کے نوجوانوں کو لے کر پیغام جاری کیا کہ تنازعہ سے پوری طرح دوری بنا لیں، یہ سازش ہے اور اس کا ایک سیاسی مطلب ہے۔ ماسٹر اوم پرکاش نے نہ صرف اسے بی جے پی کی سازش قرار دیا بلکہ میواتیوں کی پرزور حمایت بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ بھائی چارے کے ساتھ ہے، اگر حکومت چاہے تو وہ ہندو تنظیموں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے قیام کے لیے بات چیت کر کے صلح کرا سکتے ہیں مگر کسی بھی طرح کے تشدد کی وہ حمایت نہیں کریں گے۔ نوح تشدد کی بنیاد بجرنگ دل کے مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کا اشتعال انگیز بیان ہے۔ ان کی گرفتاری ہونی چاہیے۔ میواتیوں نے ہمیشہ خیر سگالی قائم کیا ہے اور وہ بھائی چارے سے رہ رہے ہیں۔ اس پورے معاملے میں بے حد غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہیے۔
ہریانہ اور راجستھان کی طرح مغربی اتر پردیش میں جاٹوں کے رخ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ بڑوت کے رویندر تیوتیا کہتے ہیں کہ کسان تحریک سے لے کر کھلاڑیوں کے دھرنے تک ہمیں کیا نہیں کہا گیا ہے! میڈیا نے بھی ہمیں کھلنایک ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اب ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہم بھائی چارے کو مضبوط کریں گے۔ مسلم ہمارے دشمن نہیں ہیں، انھوں نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ہریانہ کے نوح تشدد میں بہت سارے ایسے نکات ہیں جو ایک سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی سازش کا حصہ نہیں بننا ہے۔ ہمیں اناج پیدا کرنا ہے اور سرحد پر جوان بننا ہے۔ فساد ملک کو کمزور کرتے ہیں اور ہم ملک کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔
2013 میں مظفر نگر میں ہوئے فسادات کے بعد اب یہاں کی فضا میں بدلا ہوا رد عمل ہے۔ اس وقت مظفر نگر اور شاملی کی 9 اسمبلی سیٹوں میں سے 8 پر آر ایل ڈی اتحاد کا قبضہ ہے۔ آر ایل ڈی چیف چودھری جینت سنگھ بھائی چارے کے لیے اس علاقہ میں بہت جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ یہاں کے کسان لیڈر اکھلیش چودھری کہتے ہیں کہ فساد کے جس درد کو مظفر نگر کے جاٹوں اور مسلمانوں نے برداشت کیا ہے، اسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے۔ دونوں طبقات کو سیاست کا شکار بنایا گیا اور دونوں ہی طبقات نے زبردست تکلیف کا سامنا کیا۔ آج ہماری آنکھیں کھل چکی ہیں اور ہم ساتھ ساتھ ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ہماری لاشوں پر سیاست کر کے لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اب ہم بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ جھگڑے سے دور رہنا چاہیے، یہ مستقبل بگاڑتا ہے۔ ہریانہ کے جاٹ ترقی یافتہ اور بیدار ہیں، وہ سب کچھ سمجھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کھاپ چودھریوں نے ہریانہ کو جلنے سے بچا لیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔