بہرائچ تشدد کے بعد اب ’بلڈوزر کارروائی‘ کی تیاری! 23 گھروں پر چسپاں کیا گیا نوٹس، سرفراز کا گھر بھی زد میں

مہاراج گنج میں جن 23 گھروں پر بلڈوزر کارروائی کے لیے نوٹس چسپاں کیا گیا ہے ان میں 20 مسلمانوں کے اور 3 ہندوؤں کے ہیں، سبھی کو 3 دنوں کے اندر گھر خالی کرنے کہا گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

بہرائچ تشدد کے بعد اب بلڈوزر کارروائی کا دور شروع ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بہرائچ کے مہاراج گنج میں رام گوپال مشرا کا قتل کیے جانے کے بعد پیدا تشدد ابھی پوری طرح سے ختم بھی نہیں ہوا ہے، اور علاقہ کے تقریباً دو درجن گھروں کو توڑنے کا نوٹس انتظامیہ کے ذریعہ چسپاں کر دیا گیا ہے۔ رام گوپال کے قتل میں مبینہ طور پر شامل محمد سرفراز (ابن عبدالحمید) کا گھر بھی اس بلڈوزر کارروائی کی زد میں ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مہسی علاقہ کے مہاراج گنج میں جمعہ کے روز پولیس اور انتظامیہ کی ٹیم پہنچی۔ انتظامیہ نے ان گھروں میں لال نشان لگائے جو مبینہ طور پر ناجائز قبضہ کر بنائے گئے تھے۔ محکمہ تعمیرات عامہ کی طرف سے سبھی نشان زد گھروں پر نوٹس چپکا دیے گئے ہیں جس میں گھر خالی کرنے کے لیے 3 دنوں کی مہلت دی گئی ہے۔


انتظامیہ کے ذریعہ سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں اس میں بتایا جا رہا ہے کہ 23 گھروں پر نوٹس چسپاں کیا گیا ہے۔ ان میں سے 20 گھر مسلمانوں کے ہیں اور 3 ہندوؤں کے ہیں۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ خود سے تجاوزات نہ ہٹانے پر بلڈوزر چلا کر کارروائی کی جائے گی۔ بتایا جا رہا ہے کہ جن گھروں پر بلڈوزر کا خطرہ منڈلا رہا ہے، ان میں بہرائچ تشدد کے 5 ملزمین شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 18 اکتوبر کو ایس ڈی ایم شیلندر کمار کی نگرانی میں مہاراج گنج میں بنائے گئے غیر قانونی ٹھکانوں اور دکانوں کی پیمائش کی گئی۔ اس کے بعد ان ملزمین کے یہاں بلڈوزر چلانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ملزمین کے گھر پر محکمہ تعمیرات عامہ و ریونیو مجسٹریٹ کی طرف سے نوٹس چسپاں کیا گیا ہے۔


سرکاری افسران کے ذریعہ نوٹس چسپاں کرتے وقت کہا گیا کہ ان عمارتوں کی تعمیر کرنے سے پہلے اگر ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لی جاتی تو بلڈوزر چلنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ نوٹس کے ذریعہ افسران نے مقامی لوگوں کو بتایا ہے کہ جن لوگوں کے گھروں میں نوٹس چسپاں کیا گیا ہے، اگر انھوں نے تعمیر سے پہلے ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لی تھی تو اس کا کاغذ دستیاب کرائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔