کیرانہ کی کامیابی نے اپوزیشن کو اعتماد سے لبریز کر دیا
تبسم حسن نے بی جے پی امیدوار کو 40 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دے کر ثابت کر دیا ہے کہ نفرت کی سیاست کے خلاف اپوزیشن متحد رہی تو یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
کیرانہ: مشترکہ اپوزیشن کی امیدوار تبسم حسن کی شاندار فتح کے بعد کیرانہ میں جشن جاری ہے۔ اس ایک فتح کی اپوزیشن کو شدت سے تلاش تھی۔ پھول پور اور گورکھپور میں زبردست شکست کے بعد صوبہ اور مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کے لیے یہ شکست انتہائی شرمناک قرار دی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی اس فتح کو دانشور طبقہ بی جے پی کے زوال کا آغاز بتا رہے ہیں۔
سہارنپور کے یوتھ کانگریس لیڈر فیصل خان کے مطابق اس فتح میں سہارنپور کی دو اسمبلی نکوڑ اور گنگوہ نے اہم کردار نبھایا ہے۔ تبسم حسن کا نکوڑ میں مائیکہ ہے، ان کے مطابق بی جے پی نے پوری کوشش کی لیکن ان کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہو پائی۔ فیصل اس فتح سے بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی کے لوگ سماج کے لیے کینسر بن گئے ہیں۔ وہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں۔ اس انتخاب کو جیتنے کے لیے انھوں نے سام، دام، دَنڈ، بھید کی پالیسی اختیار کی تھی لیکن کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ ہر طرح سے تنگ آ چکے لوگوں نے انھیں اچھا سبق سکھایا۔‘‘
کیرانہ کے انتخاب میں کام کرنے والے مظفر نگر کے کونسلر شوہر محمد عمر کے مطابق انھیں اس فتح نے بہت خوشی دی ہے۔ اب امید ہے کہ بی جے پی کی تاناشاہی پر اس سے روک لگے گی۔ ان کے مطابق کیرانہ کی اس جیت نے جاٹ اور مسلمانوں کے درمیان جو تلخیاں پیدا ہوئیں تھیں اسے پوری طرح ختم کر دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی ضروری اور تاریخی فتح ہے۔ لوگوں میں مودی اور یوگی حکومت نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ سب نے متحد ہو کر بی جے پی کو منھ توڑ جواب دیا۔ کیرانہ کی عوام نے بہت صحیح فیصلہ سنایا ہے۔
آر ایل ڈی کے ترجمان ابھشیک چودھری کہتے ہیں کہ اس ایک نتیجے سے بی جے پی کی سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ اب وہ نفرت کی سیاست کر کے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ انھوں نے اس انتخاب کو 2019 عام انتخابات کے لیے ٹرائل قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بی جے پی کے دونوں وزیر اپنی اسمبلی سیٹ ہار گئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام میں کتنی ناراضگی ہے۔‘‘ ابھشیک چودھری نے مزید کہا کہ ’’وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہمارے لیڈر کو بھکاری کہا تھا، اب ان کے ہاتھ میں کٹورا ہے۔ پھول پور، گورکھپور، نور پور اور کیرانہ کی شکست کے بعد انھیں اخلاقی بنیاد پر استعفیٰ دے دینا چاہیے۔‘‘
کیرانہ میں متحد اپوزیشن کی کامیابی سے سب سے بڑا بدلاؤ جاٹ-مسلم تعلقات میں ہوا ہے۔ 2013 کے فساد کے بعد دونوں طبقہ میں کافی تلخی پیدا ہو گئی تھی جو اس انتخاب میں دور ہو گئی ہے۔ مظفر نگر فسادات میں متاثرین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’پیغامِ انسانیت‘ کے صدر حاجی آصف کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک بے حد اچھی خبر ہے۔ سیاست سے الگ ہٹ کر دیکھیں تو جاٹوں اور مسلمانوں کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔ حالات بہتر ہو چکے ہیں اس لیے اب اپنے گاؤوں کو چھوڑ چکے فساد متاثرین کو بھی واپس لوٹنا چاہیے۔ حالانکہ جاٹوں نے انھیں پہلے بھی واپس لانے کی کوششیں کی تھیں لیکن مسلمانوں کو ان پر اعتماد نہیں ہو پا رہا تھا۔ اب جب کہ جاٹوں نے دل جیت لیا ہے تو مسلم طبقہ ان پر اعتماد بھی کر سکتا ہے۔‘‘
کیرانہ میں ہجرت کا ایشو کافی موضوعِ بحث رہا ہے۔ آنجہانی بی جے پی ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ نے اس ایشو کو ہوا دی تھی۔ یہاں انتخابات میں سرگرم رہے سماجوادی پارٹی کے ’لوہیا واہنی وِنگ‘ کے قومی صدر چندر شیکھر یادو کہتے ہیں کہ ’’اب عوام ان بی جے پی والوں کو ہی یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دے گی۔ نور پور اور کیرانہ کی جیت نے بہت سکون دیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’گورکھپور میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اپنا بوتھ ہار گئے تھے، وہیں سے نفرت کی سیاست کا خاتمہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کا فائنل آپ 2019 میں دیکھیں گے جب بی جے پی پوری طرح ختم ہو جائے گی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 May 2018, 6:25 PM