بنگال اور راجستھان کے بعد اب تمل ناڈو میں بھی سی بی آئی کے داخلے پر لگی پابندی، بغیر اجازت نہیں ہوگی انٹری

تمل ناڈو سے پہلے پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، کیرالہ، میزورم، میگھالیہ اور تلنگانہ کی حکومتوں نے بھی سی بی آئی سے عام اتفاق واپس لے رکھا ہے۔

سی بی آئی کے دفتر کی تصویر 
سی بی آئی کے دفتر کی تصویر
user

قومی آواز بیورو

غیر بی جے پی حکمراں ریاستیں اکثر مرکزی حکومت پر سرکاری جانچ ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ اس تعلق سے تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت نے ایک سخت قدم اٹھاتے ہوئے گزشتہ روز ریاست میں سی بی آئی کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ اب ریاست میں کسی بھی معاملے کی جانچ کے لیے سی بی آئی کو تمل ناڈو حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ وزیر اعلیٰ اسٹالن کی قیادت والی حکومت نے سی بی آئی سے اس عام اتفاق کو واپس لے لیا ہے جس نے سی بی آئی کو بغیر اجازت تمل ناڈو میں جانچ کا اختیار دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں کچھ دیگر ریاستوں نے بھی سی بی آئی سے عام اتفاق کو واپس لیا تھا۔ ان میں پنجاب، راجستھان، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، کیرالہ، میزورم اور تلنگانہ وغیرہ شامل ہیں۔ سی بی آئی سے عام اتفاق واپس لینا اب اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کا ایک طاقتور سیاسی قدم بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ میگھالیہ میں بھی سی بی آئی کے لیے حکومت کی اجازت کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔ تمل ناڈو سمیت اب مجموعی طور پر 10 ایسی ریاستیں ہیں جس نے سی بی آئی سے عام اتفاق واپس لے لیا ہے۔


واضح رہے کہ سی بی آئی دہلی اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ 1946 کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت سی بی آئی کو ریاست میں کسی جرم کی جانچ شروع کرنے سے پہلے لازمی طور سے متعلقہ ریاستی حکومت کا عام اتفاق حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بیشتر ریاستی حکومتوں نے پہلے سے ہی عام اتفاق دے رکھا ہے۔ اس کے ملنے سے ایجنسی بغیر روک ٹوک کے ریاست میں کہیں بھی جانچ کر سکتی ہے۔ اگر ریاستی حکومت یہ عام اتفاق واپس لے لیتی ہے تو سی بی آئی ریاستی حکومت سے پوچھے بغیر کسی بھی معاملے میں جانچ نہیں کر سکتی۔ معمولی کیس میں بھی ایجنسی کو ریاست سے منظوری لینی ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر سی بی آئی کو کسی معاملے میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ جانچ کا حکم دیتا ہے تو پھر اسے ریاستی حکومت کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔