شہریت قانون: چوطرفہ دباؤ کے بعد یوگی حکومت نے کیا بے قصوروں کی گرفتاری کا اعتراف!
اتر پردیش کی یوگی حکومت نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہروں کے بعد بے قصور لوگوں پر بھی مقدمے درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب ایسے مقدمات کا جائزہ لیا جائے گا۔
اتر پردیش میں پولس کی بربریت اور بے قصور لوگوں کو نشانہ بنائے جانے کا معاملہ لگاتار بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ چہار جانب سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بی جے پی حکومت نے اپنے ایجنڈے کے تحت تمام بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن میں سے زیادہ تر اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، بہت سے لوگوں کو مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد میں عوامی ملکیت کے نقصان کی بھرپائی کرنے کا قانونی نوٹس بھی بھیجا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ایسے نوٹس ملے ہیں ان میں سے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو کسی طرح مزدوری وغیرہ کر کے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
مظفر نگر جیل سے چار بے قصور لوگوں محمد فاروق، عتیق احمد، شعیب اور محمد خالد کی تقریباً 10 دن کے بعد آزادی ملی۔ معصوم افراد کی اس آزادی کے بعد اتر پردیش حکومت اور پولس کے دعووں کی قلعی کھلنی شروع ہو گئی ہے کہ کس طرح بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
مظفر نگر کے اسسٹنٹ پولس سپرنٹنڈنٹ ستپال نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ جن چار لوگوں کو آزاد کیا گیا ہے ان میں سے ایک سرکاری محکمہ میں ٹائپسٹ ہے اور اسے سی آر پی سی کی دفعہ 169 کے تحت آزاد کیا گیا ہے۔ اس دفعہ میں یہ بات کہی گئی ہے کہ جانچ کے بعد اس کا کسی بھی تشدد میں ہاتھ نہیں پایا گیا ہے۔
دوسری طرف رام پور میں ضلع انتظامیہ نے 28 لوگوں کو عوامی ملکیت کے نقصان کی بھرپائی کے لیے 25 لاکھ روپے جمع کرانے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ضلع مجسٹریٹ انوجنئے کمار سنگھ نے بتایا کہ ان میں سے دو لوگوں کے خلاف بھیجے گئے نوٹس کو واپس لیا جا سکتا ہے کیونکہ تشدد میں ان کی شمولیت کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے تشدد میں شامل لوگوں کی شناخت کر لی ہے۔
راجدھانی لکھنؤ میں بھی افسروں نے بتایا کہ ایک خاتون نے اپنے بیٹے کو بے قصور ثابت کر دیا ہے۔ اس کا بیٹا اس وقت جیل میں ہے اور اس کی رہائی کا حکم جلد جاری ہوگا۔ اتر پردیش کے ایڈیشنل چیف سکریٹری اویناش اوستھی نے کہا کہ حکومت نے سبھی معاملوں کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جو بھی بے قصور پایا جائے گا اسے آزاد کیا جائے گا۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل اتر پردیش حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد کی جانچ کا ذمہ ضلع سطح پر ایس آئی ٹی (اسپیشل جانچ ٹیم) کے حوالے کیا ہے۔ ان ٹیموں کی قیادت ایڈیشنل پولس سپرنٹنڈنٹ کریں گے۔ ٹیم کا کام ایسے لوگوں کی شناخت کرنا ہے جو اصل معنوں میں تشدد میں شامل تھے۔ اویناش اوستھی نے بتایا کہ ’’ایس آئی ٹی اس لیے تشکیل دی گئی ہے تاکہ کسی بے قصور کی گرفتاری نہ ہو اور اگر وہ غلطی سے گرفتار ہوا ہے تو اسے آزاد کیا جائے۔‘‘
واضح رہے کہ گرفتار کیے گئے لوگوں پر مختلف دفعات میں مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں غیر قانونی جلسے، قتل کی کوشش، غیر قانونی رخنہ اندازی، مجرمانہ منشا اور سرکاری ملازم پر مجرمانہ حملے وغیرہ شامل ہیں۔ ان لوگوں پر مجرمانہ سازش تیار کرنے اور سرکاری ملکیت کو نقصان پہنچانے کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔
سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کے اراکین کا دعویٰ ہے کہ پولس نے ایک خاص طبقہ کے گھروں پر حملے کیے اور سماجی کارکنان کو گرفتار کیا۔ ان میں بہت سے بے قصور لوگوں کو بھی پتھر بازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ پولس کا کہنا ہے کہ پتھر بازی میں تقریباً 200 پولس والے زخمی ہوئے ہیں۔
اتر پردیش کے ایسے علاقوں جہاں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں اس وقت پولس بربریت کا زبردست خوف پھیلا ہوا ہے۔ لیکن اب زندگی دھیرے دھیرے معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کے اندر ایک خوف کا ماحول ہے کہ پولس کسی بھی وقت آ کر ان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Jan 2020, 3:45 PM