بجنور: مودی کا ہدف پورا کرنے کیلئے افسران’باہوبلی‘ بن گئے!
لوگوں کو بیدار کرنے میں ناکام افسران خود کو مودی حکومت کا وفادار ظاہر کرنے کے چکر میں جابرانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور ٹیکہ کاری مہم کا ہدف پورا کرنے کیلئے ’راشن بندی ‘ پر اتر آئے ہیں۔
مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جا رہی ٹیکہ کاری مہم کے ہدف کو پورا کرنے میں جب بجنور محکمہ صحت کے افسران ناکام ہو گئے تو وہ ’باہو بلی ‘ بن گئے۔ انہوں نے بجنور کے بلاک کوتوالی دیہات میں راشن ڈیلروں کی ایک میٹنگ طلب کی اور فرمان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی راشن کارڈ ہولڈر ٹیکہ کاری نہ کروائے اس کا راشن بند کر دیا جائے! یہ راشن بندی ایسے وقت میں کی جار ہی ہے جبکہ راشن نہ ملنے کی وجہ سے ملک بھر میں کئی افراد تڑپ تڑپ کر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ اس جابرانہ اقدام میں بجنور کے محکمہ صحت اور محکمہ غذاکے افسران ملوث ہیں۔
بلاک کوتوالی دیہات میں 6 جنوری کو منعقد ایک میٹنگ کے دوران یہ تغلقی فرمان جاری کیا گیا۔ میٹنگ میں تقریباً ایک درجن گاؤں کے راشن ڈیلروں کو بلایا گیا تھا۔ ان گاؤں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ مسلم اور دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کوتوالی دیہات کے محکمہ صحت کے نوڈل افسر اے سی ایم او پرمود دیشوال، سپلائی انسپکٹر ونیت کمار اور یونیسیف کے بلاک کوآرڈینیٹر لوکیندر نے بھی اس میٹنگ سے خطاب کیا۔
کوتوالی دیہات کے کنجھیتا، مظفر نگر اور مہیشری جٹ سمیت متعدد گاؤں کے لوگ اس فرمان سے ڈرے ہوئے ہیں اور کئی طرح کے رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ مہیشری جٹ کے رہائشی یامین کے مطابق ٹیکہ کاری کی مخالفت کچھ لوگ کرتے ضرور ہیں لیکن جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو وہ مان جاتے ہیں ۔ لیکن اس طرح کا فرمان جاری کرنا اور زبردستی کرنا لوگوں کے ذہنوں میں شبہات پیدا ہو تے ہیں جس سے ٹیکہ کاری کا عمل متاثر ہوتاہے۔
واضح رہے کہ یہ ٹیکہ کاری مہم مرکزی حکومت کے مشن ’اندر دھنو ش‘ منصوبہ کے تحت چلائی جا رہی ہے اور وزیر اعظم کے اعلیٰ ترجیحی منصوبوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ در اصل کچھ اضلاع میں ٹیکہ کاری کی شرح 90 فیصد تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ معلومات کے مطابق اس منصوبے پر وزیر اعظم کے دفتر سے نظر رکھی جا رہی ہے۔ مقامی سماجی کارکن زبیر احمد کے مطابق ’’افسروں پر ہدف کو پورا کرنے کا دباؤ ہے ، اس لئے ایسا فرمان جاری کیا گیا ہے۔ افسر کسی بھی قیمت پر ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
بجنور ضلع ملک بھر کے ان 82 اضلاع میں شامل ہے جہاں ہر دوسرے بچے کی ٹیکہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ یہاں کے 49 فیصد بچے اس سے محروم ہیں۔ کوتوالی دیہات بلاک کے نوڈل افسر پرمود دیشوال ماضی میں کئے گئے ایک کامیاب تجربہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔ ’’ بلاک چندک کے کئی گاؤں ٹیکہ کاری کی مخالفت کر رہے تھے ، وہاں ترسیلی افسر کے ذریعہ راشن ڈیلروں کا تعاون حاصل کیا گیا اور وہاں ٹیکہ کاری 40 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد تک پہنچ گئی۔‘‘
چندک میں ملی اس کامیابی کے بعد یہ تجربہ کوتوالی دیہات میں دہرایا جا رہا ہے، اس بلاک میں 149 گاؤں ہیں جن میں سے تقریباً ایک درجن گاؤں میں ٹیکہ کاری مہم کی مخالفت ہو رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے اس تعلق سے یونیسیف کی ضلع کوآرڈینیٹر ترنم صدیقی کا کہنا ہے ’’ لوگوں میں بیداری کا فقدان ہے اس لئے وہ ٹیکہ کاری نہیں کرانا چاہتے۔ یہ گاؤں بے حد پسماندہ ہیں اور یہاں کےلوگ بہت غریب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو ٹیکہ لگانے سے بخار ہو جاتا ہے جو تین دن تک نہیں اترتا۔ غربت کے مارے خاندانوں کی خواتین بھی کام کاجی ہیں اور وہ اپنے بچوں کو گود میں لے کر بیٹھی نہیں رہ سکتیں۔‘‘ ترنم کہتی ہیں ’’ لوگوں میں اور بھی کئی طرح کی غلط فہمیاں ہیں جنہیں سمجھا بجھا کر دور کیا جا نا چاہئے ۔ ‘‘
نجیب آباد کے سابق رکن اسمبلی شیش رام کے مطابق ’’اس تغلقی فرمان سے تو دیہات کے لوگ اور ضدپر اڑ جائیں گے۔ جن راشن ڈیلروں کو راشن بند کرنے کی پاور دی جا رہی ہے اصل میں تو انہیں کا کردار مشکوک ہے۔‘‘ شیش رام کے مطابق یہ فیصلہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔
بجنور کے ضلع مجسٹریٹ جگت راج کے مطابق اس میٹنگ میں صرف زیادہ سے زیادہ ٹیکہ کاری کی بات کہی ہے، راشن بندی کی انہیں کوئی معلومات نہیں ہے۔
ویسے اب چہار سو تنقید کے بعد محکمہ صحت کے افسران نے بات بدل دی ہے ۔ ٹیکہ کاری مہم کے سربراہ ڈاکٹر پرمود دیشوال کہتے ہیں ’’ ہم راشن نہیں روک رہے ، وہ تو بس ڈرانے کے لئے کہہ دیا گیا تھا۔ ‘‘ کوتوالی دیہات کے سابق پردھان اشتیاق کہتے ہیں ’’ گاؤں والے بھولے بھالے لوگ ہیں، انہیں ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر ان کو سمجھا یا جائے تو مان جاتے ہیں۔ ‘‘
بجنور سے وابستہ الیکٹرانک میڈیا کے معروف صحافی یوسف انصاری کہتے ہیں ’’بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ٹیکہ کاری بہت ضروری ہے، لیکن راشن بندی کی دھمکی غیر پیشہ ورانہ طریقہ لگتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ جبکہ راشن کی وجہ سے ملک بھر میں کئی اموات ہو چکی ہیں۔‘‘
ماہر قانون اور معروف ایڈوکیٹ نسیم الدین کا کہنا ہے ’’یہ طریقہ غیر قانونی ہے اور انسانی حقوق کی خلا ف ورزی ہے۔ لوگوں کو سمجھایا جانا چاہئے تاکہ ٹیکہ کاری کا ہد ف پورا کیا جا سکے۔ تغلقی فرمان جاری کرنا کسی بات کا حل نہیں ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔