ہولی کے موقع پر ترپال سے ڈھکی گئیں مساجد، یوگی حکومت شرپسندوں کے سامنے بے بس!
اس پوری قواعد کو حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی ہی کہا جائے گا کیونکہ ہنگامہ برپا کرنے والے شرپسندوں کو روکنے کے بجائے عبادت گاہوں کو ڈھک کر اقلیتوں کو کارروائی کے مرکز میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شاہجہاں پور: اترپردیش میں نظم ونسق کو لے کر اکثر سوالوں کے گھیرے میں رہنے والی یوگی حکومت شرپسندوں کے سامنے بے بس ہے مگر مذہبی مقامات کو لے کر اپنی طاقت دکھانے میں کہیں سے بھی پیچھے نہیں ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات ریاست کے شاہجہاں پور میں دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں ہولی کے موقع پر پولیس نے سڑکوں پر واقع مساجد کو ترپال سے ڈھک دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : جرمنی میں ساڑھے چھ ملین انسانوں کی داخلی نقل مکانی
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہولی کے دوران مساجد پر رنگ یا جوتے پھینکنے کے واقعات ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے مساجد کو پلاسٹک کور سے ڈھک دیا گیا ہے۔ شاہجہاں پور ایک ایسا ضلع ہے جہاں پورے ملک میں سب سے انوکھی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ چونکہ جلوس میں کافی ہنگامہ ہوتا ہے اوراس دوران کئی بار ایسا ہوا ہے کہ شرپسند عناصرنے مسجد میں رنگ ڈال دیا اور تنازعہ پیدا ہوگیا۔
ایس پی سٹی سنجے کمار نے بتایا کہ شہر میں تقریباً 41 مساجد ہیں، جنہیں پلاسٹک کور سے ڈھکنے کے ساتھ ہی ان کی حفاظت کے لئے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی بھی کی جائے گی۔ نیز گزشتہ سال ہولی کے موقع پر جلوس میں ڈیوٹی انجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو تجربے کی بنیاد پر تعینات کیا گیا ہے۔ دراصل 29 مارچ یعنی آج ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اسی دن یہاں لاٹ صاحب کے دو جلوس نکلتے ہیں۔ جس میں ایک شخص کو لاٹ صاحب بنا کر بھینسا گاڑی پر بٹھایا جاتا ہے اور پھر اسے جوتے اور جھاڑو مار کر پورے شہرمیں گھمایا جاتا ہے۔ اس دوران عام لوگ لاٹ صاحب کو جوتے بھی پھینک کر مارتے ہیں۔ اس موقع پر بڑی بھیڑ جمع ہوتی ہے۔ بتا دیں کہ انگریزوں کے تئیں اپناغصہ دکھانے کے لئے یہاں ایک شخص کو انگریز کی علامت لاٹ صاحب بناکر اسے بھینسا گاڑی پر بٹھایا جاتا ہے اور پھر جوتوں اور جھاڑو سے پیٹا جاتا ہے۔
انتہائی حساس مانے جانے والے لاٹ صاحب کے جلوس کو پرامن طریقے سے نکالنے کے لئے پولیس نے ایک ماہ قبل ہی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ چوک کوتوالی علاقے کے محلہ محمد زئی میں واقع مسجد کو ترپال سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ ہولی کے تہوار پر شرپسند عناصر عبادت گاہ پر رنگ پھینک کر شہر کے فرقہ وارانہ ماحول کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ عبادت گاہ کی حفاظت کے لئے ایک مذہبی مقام پر قریب نصف درجن پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا۔ مذہبی مقامات پر رنگ پھینکنے کے بعد اکثر فرقہ وارانہ کشیدگی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں ایسی صورتحال میں پولیس انتظامیہ نے مذہبی مقامات کو ترپال سے ڈھانپنے کا قدم اٹھایا۔ اس سے مذہبی مقامات پر رنگ پھینکنے کے واقعات پر لگام لگے گی۔
یہ بھی پڑھیں : ’بی جے پی رکن اسمبلی نے اپنے اوپر خود ہی حملہ کروایا‘
فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے پولیس اور انتظامیہ ہر تھانہ سطح پر پیس میٹنگ منعقد کرتا ہے اور آپسی رضا مندی کے بعد مساجد کو پوری طرح سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ ایس پی آنند کا کہنا ہے کہ شہر میں نظم ونسق قائم رکھنے کے لئے بھاری تعداد میں پیراملٹری فورس، پی اے سی اور کئی اضلاع کی پولیس فورس بلائی گئی ہے جو مساجد اور پورے شہر کی حفاظت کرے گی ساتھ ہی ڈرون کے ذریعہ بھی جلوس پر نظر رکھی جائے گی۔ اس پوری قواعد کو حکومت اور انتظامیہ کی ناکامی ہی کہا جائے گا، کیونکہ ہنگامہ برپا کرنے والے شرپسندوں کو روکنے کے بجائے عبادت گاہوں کو ڈھک کر اقلیتوں کو کارروائی کے مرکز میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Mar 2021, 1:11 PM