’آدتیہ ایل 1‘ نے رقم کی تاریخ، کامیابی کے ساتھ سورج کے آخری مدار میں رکھا قدم، پی ایم مودی نے دی مبارکباد

لانچ کے 5 ماہ بعد ’آدتیہ ایل 1‘ نے اپنی منزل حاصل کرتے ہوئے ’ایل 1‘ پوائنٹ کے ہیلو آربٹ میں رسائی حاصل کر لی ہے، اب ہندوستان کا یہ پہلا سورج مشن پوری دنیا کے سیٹلائٹس کو شمسی طوفانوں سے بچائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>مشن سورج، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

مشن سورج، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

اِسرو نے چاند کے بعد سورج پر بھی فتح حاصل کر لی ہے۔ نئے سال میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اِسرو) نے تاریخی کارنامہ انجام دیتے ہوئے ’آدتیہ ایل 1‘ سیٹلائٹ کو سورج کے قریبی مدار ’ایل 1 پوائنٹ‘ میں کامیابی کے ساتھ داخل کر دیا ہے۔ اب ہندوستان کے پہلے سورج مشن کی زمین سے دوری 15 لاکھ کلومیٹر ہے۔ 2 ستمبر 2023 کو شروع ہوا آدتیہ ایل 1 کا یہ سفر ختم ہو چکا ہے اور اب وہ ’ایل 1 پوائنٹ‘ مدار میں رہتے ہوئے سورج پر اپنی نظر بنائے رکھے گا اور کئی راز کھولے گا۔ تقریباً 400 کروڑ روپے کا یہ مشن اب ہندوستان سمیت پوری دنیا کے سیٹلائٹس کو شمسی طوفانوں سے بچائے گا۔

اِسرو کی اس کامیابی پر وزیر اعظم نریندر مودی نے مبارکباد پیش کی ہے اور اس سلسلے میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ بھی کیا ہے۔ اس پوسٹ میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’ہندوستان نے مزید سنگ میل حاصل کر لیا۔ ہندوستان کا پہلا شمسی مشن آدتیہ-ایل 1 اپنی منزل تک پہنچ گیا۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’یہ ہمارے سائنسدانوں کی انتہائی پیچیدہ خلائی مشنوں میں سے ایک کو سمجھنے میں انتھک لگن کا ثبوت ہے۔ میں اس غیر معمولی کارنامے کی تعریف میں ملک کے ساتھ شامل ہوں۔ ہم انسانیت کے فائدے کے لیے سائنس کے نئے محاذوں پر آگے بڑھتے رہیں گے۔‘‘


واضح رہے کہ ’آدتیہ ایل 1‘ کا سفر 2 ستمبر 2023 کو شروع ہوا تھا۔ تقریباً 5 ماہ بعد 6 جنوری 2024 کی شام یہ سیٹلائٹ ایل 1 پوائنٹ پر پہنچ گیا۔ آدتیہ ایل 1 اب اس ’ایل 1‘ پوائنٹ کے چاروں طرف موجود سولر ہیلو آربٹ میں تعینات ہو چکا ہے۔ ہیلو آربٹ میں ڈالنے کے لیے آدتیہ ایل 1 سیٹلائٹ کے تھرسٹرس کو تھوڑی دیر کے لیے آن کیا گیا۔ اب آدتیہ سوریہ کی تحقیق کر رہے ناسا کے چار دیگر سیٹلائٹس کے گروپ میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ سیٹلائٹس ہیں وائنڈ، ایڈوانس کمپوزیشن ایکسپلورر (اے سی ای)، ڈیپ اسپیس کلائمیٹ آبزرویٹری اور ناسا-ای ایس اے کا جوائنٹ مشن ’سوہو‘ یعنی سولر اینڈ ہیلیوسفیرک آبزرویٹری۔

قابل ذکر ہے کہ آدتیہ ایل 1 کو ’ایل 1 پوائنٹ‘ میں داخل کرنا ایک چیلنج بھرا عمل تھا۔ اس میں رفتار اور سمت کا درست تال میل ضروری تھا۔ اس کے لیے اِسرو کو یہ جاننا ضروری تھا کہ ان کا اسپیس کرافٹ کہاں موجود تھا، کہاں ہے، اور کہاں جائے گا۔ سیٹلائٹ کو اس طرح ٹریک کرنے کے پروسیس کو آربٹ ڈٹرمنیشن کہتے ہیں۔ آدتیہ ایل 1 مشن کی پروجیکٹ ڈائریکٹر نگار شازی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ یہ مشن صرف سورج کی تحقیق کرنے میں مدد نہیں کرے گا بلکہ 400 کروڑ روپے کا یہ پروجیکٹ شمسی طوفانوں کی جانکاری بھی دے گا۔ اس سے ہندوستان کے پچاسوں ہزار کروڑ روپے کے پچاسوں سیٹلائٹ کو محفوظ کیا جا سکے گا۔ جو بھی ملک اس طرح کی مدد مانگے گا، انھیں بھی مدد فراہم کی جائے گی۔ یہ پروجیکٹ ملک کے لیے بے حد ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔