مہاراشٹر کے سینے پر 'اڈانی راشٹر' کھڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، 'سامنا' نے مہایوتی کی جیت پر اٹھائے سوال
'سامنا' نے اپنے مضمون میں لکھا ہے "اسمبلی انتخابات کے نتائج آ گئے ہیں، لیکن یہ رائے عامہ یا 'مینڈیٹ' نہیں ہے، شندے اور اجیت کو اتنی نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟"
مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ اس انتخاب میں بی جے پی کی قیادت والے مہایوتی اتحاد کو واضح اکثریت ملی ہے۔ اس سلسلے میں جیت پر ایک طرف جشن ہے تو دوسری طرف غور و فکر کا دور جاری ہے۔ ان سب کے درمیان شیو سینا ادھو گروپ نے انتخابی نتائج پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ شیو سینا نے اپنے مکھ پتر 'سامنا' میں مہایوتی کی کامیابی کو بے ایمانی کی جیت اور 'اڈانی راشٹر' کی سازش بتایا ہے۔ ساتھ ہی 'سامنا' میں بی جے پی کے متنازع نعرہ 'بٹیں گے تو کٹیں گے' کی بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔
'سامنا' نے اپنے مضمون میں لکھا ہے "اسمبلی انتخابات کے نتائج آ گئے ہیں، لیکن یہ رائے عامہ یا 'مینڈیٹ' نہیں ہے۔ بی جے پی قیادت والی مہایوتی کو 231 نشستیں مل سکتی ہیں، اس پر کون یقین کرے گا؟ بے ایمان شندے گروپ 57 اور نازک اجیت پوار گروپ نے 41 سیٹیں جیت لیں۔ یہ نتیجہ پریشان کن ہے۔ ریاستی حکومت کے خلاف شدید بے اطمینانی تھی۔ مہاراشٹر کے عوام میں بی جے پی اور اس کے ذریعہ پالے گئے غداروں کے خلاف زبردست غصہ تھا۔ جب مہاراشٹر کے عوام سبھی بے ایمانوں کو گاڑنے کا عزم لے کر ووٹنگ کرتے ہیں، لیکن ایک جھٹکے میں سبھی بے ایمان جیت جاتے ہیں اور بے ایمانوں کی جئے-جئے کار کرتے ہوئے فتح جلوس نکالتے ہیں تو یہ مہاراشٹر کے وقار پر گہری چوٹ ہے۔ یہ نتیجہ ناقابل قبول ہے۔"
'سامنا' کے اس مضمون میں کسانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ لکھا گیا ہے "قرض کے بوجھ تلے دبے کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ پیاز، ٹماٹر، دودھ سڑک پر پھینکنا پڑ رہا ہے۔ مہاراشٹر کی صنعتوں کو گجرات لے جانے سے ریاست کے نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے کسانوں کے بچوں کی شادی نہیں ہو پاتی۔ پھر بھی، کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اس حکومت کے تئیں محبت کی ایسی لہر اٹھی اور اس میں ایک بدنام، غیر آئینی حکومت دوبارہ جیت گئی؟ لوک سبھا میں مہاراشٹر نے اپنا وقار، آن بان دکھا کر مودی-شاہ کی مہاراشٹر مخالف سیاست کو شکست دے دی، جس مہاراشٹر میں چار مہینے پہلے مہاراشٹر نے لوک سبھا میں مودی کی اکثریت روکنے کی جانبازی دکھائی تھی، اسی مہاراشٹر میں اگلے چار مہینے میں اسمبلی کا یہ نتیجہ آیا اور مہاراشٹر میں عظمت کے 'کنڈل' پگھل کر گر گئے۔ مہاراشٹر کی جیسے چمک ہی ختم ہو گئی ہے۔"
مضمون میں الیکشن کمیشن پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہاراشٹر کی سرزمین پر 'بٹیں گے تو کٹیں گے' جییسی زہریلی تشہیری مہم چلائی گئی اور الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں ظاہر کیا۔ پیسوں کی بے انتہا بارش ہوئی۔ اب اگر پیسے کے دم پر انتخاب لڑنا اور جیتنا ہے تو جمہوریت کو تالا ہی لگا دینا ہوگا اور اب صرف اڈانی کی پارٹی ہی انتخاب لڑ سکے گی۔ عام آدمی کے بیش قیمت ووٹ کو پیسے کے وزن پر تولا گیا اور اب اسی کے مطابق جیت کی گونج سنائی دینے لگی۔ شرد پوار، ادھو ٹھاکرے جیسے رہنماؤں نے مہاراشٹر میں سخت محنت کی۔ کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں اور خواتین نے انہیں زبردست حمایت دی، پھر بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ لاڈلی بہنوں کے 1500 روپے کی وجہ سے ہی مہاوکاس اگھاڑی کی شکست ہوئی تو یہ صحیح نہیں ہے۔
'سامنا' میں گوتم اڈانی پر حملہ کرتے ہوئے لکھا گیا "اس جیت کے پیچھے 'اڈانی راشٹر' کی بڑی سازش ہے۔ دو دن پہلے امریکہ میں اڈانی کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوتا ہے اور پوری بی جے پی اڈانی کی بدعنوانی کی پشت پناہی میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ جس اڈانی کی جیب میں ممبئی سمیت مہاراشٹر کی پوری عوامی دولت کو ڈالنے کی سازش مودی-شاہ-فڑنویس-شندے کرتے ہیں، اسی اڈانی کی عزت بچانے کے لیے مہاراشٹر کا پورا 'نتیجہ' کیا گیا۔ آج مہاراشٹر ختم ہو گیا اس لیے 'راشٹر' بھی ختم ہو گیا۔ 'اڈانی راشٹر' کے آنے کی خوشی شروع ہو گئی، یہ خوشی جن کی ہے، انہیں مبارک۔ مہاراشٹر کے سینے پر 'اڈانی راشٹر' کھڑا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ جیت سچ نہیں ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔