جشن ریختہ: شاعری ناکام عشق اور نشے سے بہت آگے بڑھ چکی ہے... ادبی چوپال
نوجوان شاعروں کے ساتھ ’ادبی چوپال‘ میں بات چیت کرتے ہوئے مشہور و معروف شاعر فرحت احساس نے کہا کہ ”شاعری کئی لوگوں کی لیے زندگی بخش ثابت ہوئی ہے اور یہ بہترین رہنما بھی ہے۔“
ایک وقت تھا جب عشق میں ناکام ہونے والے لوگ نشے میں ڈوب جایا کرتے تھے اور پھر وہ اپنا غم بھلانے کے لیے شاعری کیا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں میں ماحول بہت بدلا ہے اور شاعری صرف شاعر کے وجود کو ہی منظر عام پر لانے کا کام نہیں کر رہی ہے بلکہ حالات حاضرہ سے واقفیت کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔ کچھ اسی طرح کی باتوں کا اظہار جشن ریختہ کے دوسرے دن منعقد ادبی چوپال میں ہوا جس میں نئی نسل کے شعراءنے اپنی زندگی، اپنی شاعری اور اور اس کے اثرات پر سیر حاصل گفتگو کی۔
15دسمبر کو میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم (نئی دہلی) کے ’سخن زار‘ میں منعقد اس ادبی چوپال کی نظامت مشہور و معروف شاعر فرحت احساس کر رہے تھے جنھوں نے تقریب میں موجود نوجوان شاعروں کی اس میدان میں آنے کی وجہ، ان کے رجحانات اور شخصیت سازی کے حوالے سے باتیں کیں۔ بات چیت کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے انھوں نے سب سے پہلے پرانے دور کا تذکرہ کیا جب وہ شاعری کرتے تھے لیکن انھیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”ہم اشعار لکھ کر رکھ لیا کرتے تھے یا پھر رسائل میں شائع کرنے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ مشاعروں میں ہمیں سننے والے لوگ انتہائی کم نظر آتے تھے۔ آج حیرانی ہوتی ہے جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ مشاعروں میں پہنچتے ہیں اور شعراءکو داد و تحسین دیتے ہیں۔“ فرحت احساس نے اردو ادب میں شاعری کی اہمیت پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کئی لوگوں کے لیے زندگی بخش ثابت ہوئی ہے اور بہترین رہنما بھی۔ اس تعلق سے اترپردیش کے سنت کبیر نگر سے تعلق رکھنے والے شاعر ارشاد خان نے ہزاروں کی تعداد میں پہنچے سامعین کوبتایا کہ ”ایک وقت ایسا تھا جب میرے پاس دو ہی راستے بچے تھے، یا تو میں خودکشی کرتا یا پھر شاعری کرتا۔ میں نے ایسے وقت میں شاعری کو منتخب کیا۔ یہ شاعری آپ کو جینے کی وجہ دیتی ہے اور اپنے اندر کے غموں کا اظہار کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔“ ارشاد خان اس موقع پر یہ شعر بھی سناتے ہیں کہ:
جسم دریا کا تھرتھرایا ہے
ہم نے پانی سے سر اٹھایا ہے
اب میں زخموں کو پھول کہتا ہوں
فن یہ مشکل سے ہاتھ آیا ہے
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والی شبنم عشائی نے فرحت احساس کے ساتھ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے شاعری کو کتھارسس اور اپنے وجود کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ”دکھوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ یہ آدمی اور ہوا کا مشترکہ ورثہ ہوتا ہے۔ ہم سب دکھ کے پالنے میں پلتے ہیں، بڑے ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور پھر بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ہم زندگی گزارتے رہتے ہیں لیکن جو تکلیف ہمیں ملتی ہے اس سے نجات حاصل کرنے کی جو کوشش ہوتی ہے وہی میری شاعری ہے۔“ شبنم کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی انھیں مختلف طرح کے مسائل اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ تکلیف کئی طرح کی ہوتی ہیں، یعنی سماجی، نفسیاتی، روحانی اور تنہائی بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ”تنہائی بچپن سے میرے ساتھ رہی اور یہی شاعری کا سبب بن گئی۔
نوجوان شاعر ابھشیک شکلا کا معاملہ شبنم سے تھوڑا مختلف ہے۔ وہ اپنی شاعری کے پیچھے محبت کی طاقت دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”مجھے لگتا ہے محبت ایسی چابی ہے جس نے نہ جانے کتنے دروازے کھولے ہیں۔ اسی جذبے نے میری شاعری کو بھی جلا بخشی۔ میں جو بھی کام کرتا ہوں اس کے پیچھے محبت کا بڑا دخل ہے۔“ ابھشیک شکلا اپنا نظریہ اس شعر کے ساتھ بھی بیان کرتے ہیں کہ:
پایہ امید پر رکھے ہوئے سر ہیں ہم لوگ
ہیں نہ ہونے کے برابر ہی مگر، ہیں ہم لوگ
جتنی جلدی ہو مری مان کنارہ کر لے
تو سفینہ ہے مری جان، بھنور ہیں ہم لوگ
ادبی چوپال میں آئی اے ایس پون کمار بھی اپنی شاعری کے تعلق سے تجربہ بیان کرنے کے لیے فرحت احساس کے سامنے بیٹھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتے تھے لیکن کم عمر میں سرکاری ملازمت کی وجہ سے اظہارِ رائے نہیں کر پاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ”کچھ ملازمت کی بندشیں تھیں اور کچھ ذمہ داریوں کا احساس بھی۔ لیکن شاعری نے مجھے ایک ایسا پلیٹ فارم عطا کیا جہاں اپنے اندر کے احساسات اور جذبات کا اظہار بہ آسانی کر سکتا تھا۔“ وہ مزید کہتے ہیں کہ ”میں ایسے ماحول میں رہتا ہوں اور ایسی ایسی چیزیں دیکھتا ہوں جو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا، اس لیے میری شاعری میں بھی ایسے جذبات مل جائیں گے جس کا تجربہ کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔“
فرحت احساس نے اس موقع پر کہا کہ یقینا شاعری معاشرے اور حالات سے متاثر ہوتی ہے اور پون کمار کی شاعری میں ان کے تجربات بخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ موجودہ وقت میں ملک کے کشیدہ اور مشکل حالات کا بھی فرحت احساس نے تذکرہ کیا اور کہا کہ کچھ شاعر اس ماحول کا تذکرہ بھی اپنی شاعری میں کر رہے ہیں جن میں سے ایک امیر امام ہیں۔ انھوں نے امیر امام سے سوال کیا کہ انھیں غصہ کیوں آتا ہے؟ جواب میں امیر امام نے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ جو میں محسوس کرتا ہوں وہ اپنے آپ نکل کر باہر آ جاتا ہے۔ زندہ ہونے کی ایک نشانی غصہ ہے اور اس کا اظہار بھی ضروری ہے۔ جہاں آپ کو غصہ آنا چاہیے وہاں غصہ نہیں آتا تو سمجھ لیجیے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔“ غصے پر مبنی ایک شعر بھی وہ نذرِ سامعین کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:
ساتھ چلتے ہیں مگر یہ ہم قدم غصے میں ہیں
ہم سے دنیا اور اس دنیا سے ہم غصے میں ہیں
مسکرا بیٹھے ہیں تجھ کو مسکراتا دیکھ کر
ورنہ تیری مسکراہٹ کی قسم غصے میں ہیں
معروف شاعرہ علینہ عترت نے اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر کا ماحول ہمیشہ سے ادبی رہا ہے لیکن کبھی شاعری کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ”میری زندگی بہت مصروف تھی اور شاعری کے لیے وقت نہیں تھا۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا جب میری طبیعت خراب تھی اور ڈاکٹر نے آٹھ مہینے کا آرام کہہ دیا۔ اس وقت میں ڈپریشن کا شکار ہو رہی تھی لیکن شاعری میرا سہارا بنی اور مجھے ایک نئی پہچان بھی ملی۔“ خالی وقت میں شاعری کو اپنا دوست بنانے والی علینہ ایک بار پھر انتہائی مصروف رہنے لگی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب وہ شاعری کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”اپنے اندر کے احساسات اور اپنے ساتھ ہوئے واقعات کو شاعری میں سمو کر انھیں بے پناہ سکون حاصل ہوتا ہے۔“
نوجوان شاعر پلّو مشرا بھی شاعری کو اپنی زندگی کا مضبوط حصہ تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے ادبی چوپال میں بتایا کہ ”جو خوشی مجھے شاعری سے ملتی ہے وہ کہیں اور سے نہیں مل سکتی۔ میری ذات کا سب سے بڑا حصہ شاعری ہے۔ کوئی غم اندر ہو اور اس پر شعر ہو جاتا ہے تو مجھے غم کا مزہ آنے لگتا ہے۔“
اتر پردیش کے ضلع بلیا سے تعلق رکھنے والے مدن موہن دانش کو غزلیں کہنا بہت اچھا لگتا ہے۔ انھیں اُردو الفاظ کی شیرینی بھی بہت پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اُردو میں ایسے کئی فارسی الفاظ موجود ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں بھی شامل ہو گئے ہیں اور لوگوں کو پتہ نہیں۔ میرے گاﺅں میں گدے کو توشک کہا جاتا ہے اور مین گیٹ کو صدر دروازہ کہا جاتا ہے۔ ایسے کئی الفاظ عام زندگی میں ہیں اور یہ مشترکہ تہذیب کی نشانی ہے۔“ اس موقع پر ترکش پردیپ نے بھی اردو زبان کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ کیا۔ لیکن ساتھ ہی انھوں نے شاعری کے ساتھ عشق اور نشہ کو جوڑے جانے کے تعلق سے بھی انتہائی دلچسپ بات بتائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میں نے دسمبر 2012 میں آخری بار شراب پی ہوگی اور جولائی 2013 میں پہلا شعر کہا ہوگا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ شاعری نشے کی حالت میں رہ کر ہی کی جاتی ہو۔“ ترکش شاعری کو اپنی روز مرہ کی زندگی سے پیدا شدہ بے سکونی کو ختم کرنے اور اپنی تکلیف و اشتعال کو ظاہر کرنے کا بہترین ذریعہ مانتے ہیں۔ اپنی بات کو شعری پیرایہ میں وہ اس طرح کہتے ہیں کہ:
دم اگر شور مچانے پہ نہیں آتے ہیں
حضرت ہوش ٹھکانے پہ نہیں آتے ہیں
اپنی مرضی کا بڑا ہاتھ ہے اس رونے میں
جتنے آنسو ہیں رلانے میں نہیں آتے ہیں
نظموں کی شاعری کرنے والی گیتانجلی رائے بھی فرحت احساس کے ساتھ ادبی چوپال میں موجود تھیں۔ شاعری کے تعلق سے اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ”میری نظمیں زندگی کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں دفتر کا بھی تذکرہ ہے، اپنے تجربات بھی ہیں، دوسروں کی زندگی سے بھی بہت کچھ ہے۔ رشتوں کی تلخی و شیرینی کے ساتھ ساتھ زندگی میں موجود خالی پن کو بھی میں نے نظموں میں ڈھالا ہے اور محسوس کرتی ہوں کہ نظمیں میرے اندر کی ہر چیز کو باہر لانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔“
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔