گالی کا جواب گالی سے نہ دیا جائے..خرم رضا
اسدالدین اویسی کی زبان میں تکبر تھا اور راہل گاندھی کے بیان میں انکساری نظر تھی۔ جیتنے کے بعد دونوں کے بیانات کے بعد خود بخود یہ بات ذہن میں آئی کہ شائد یہ صحیح ہے کہ خالی برتن زیادہ شور مچاتا ہے۔
مودی اور یوگی کی مدد سے اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ۔ کامیابی ایسی ویسی نہیں جناب، پارٹی نے 8 امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے 7 امیدوار کامیاب ہو گئے ۔ اس کامیابی کا سہرا کوئی ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد کو دے رہا ہے تو کوئی اس کا سہرا یوگی اور مودی کی اس فرقہ وارانہ سیات کے سر باندھ رہا ہے جہاں رائے دہندگان بنیادی مدے بھول کر صرف مذہب کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کر تے ہیں لیکن اس کامیابی کے لئے صحیح مبارک باد کےاگر کوئی مستحق ہیں تو وہ پارٹی صدر اسد الدین اویسی ہیں ۔
اسد الدین اویسی جو شاندار انگریزی بولتے ہیں وہ اپنی مسلم پہچان بنائے رکھنے کے لئے ٹوپی اور شیروانی کو بھی کبھی نہیں اتارتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو وہ دکھائی دیتے ہیں دراصل ویسے وہ ہیں نہیں، لیکن سیاسی مجبوری ہے کہ ان کو خود کو ایسا دکھانا پڑتا ہے کیونکہ یہ ان کی سیاست کے تقاضے ہیں ۔ وہ اگر ایسا نہیں کریں گے، وہ اگر یوگی اور مودی کو ان کی زبان میں جواب نہیں دیں گے تو ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں کیا فرق رہے گا اور پھر مسلمان ان کی سیاسی دوکان کے آگے کیوں لائن لگائیں گے ۔ ان کی اس بات کے لئے تعریف کرنی ہوگی کہ ان کو اپنے والد سے سیاسی وراثت ملی تھی اس کو انہوں نے نہ صرف بچا کر رکھا بلکہ اس کے ذریعہ اپنی علاقائی پہچان کو قومی پہچان میں بھی کامیابی سے تبدیل کیا ہے۔
ان انتخابات میں انہوں نے سیاسی ہوا کو سمجھتے ہوئے ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد کیا اور کانگریس اور بی جے پی کو اپنی تنقید اور حملوں کا مرکز بنایا ۔ ویسے ان کے بارے میں یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ جب مرکز میں کانگریس تھی تو اس وقت وہ کانگریس کے ساتھ تھے اور ان کے والد بھی کانگریس کے ساتھ رہے ہیں۔آج کی سیاست کے یہ تقاضہ ہیں کہ ہر سیاست داں اپنے اقتدار اور اپنی سیاست کو بچائے اور زندہ رکھنے کے لئے بہت سی حدیں پار کرتا ہے اس لئے اسدا الدین اویسی اور یوگی جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کی سیاسی مجبوری ہے ۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سیاست داں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بنیادی حدیں عبور کرتے ہیں اور ملک اور قوم کے مفا دات کو طاق پر رکھ دیتے ہیں ۔ اسدا لدین اویسی دراصل کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں وہ جس سیاست کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں اس میں یہ ضرور ہے کہ اس وقت انہیں شاندار کامیابی بھی مل رہی ہو اور زبردست شہرت بھی مل رہی ہو لیکن کیا اس کے حصول کے لئے وہ ایک خاص قوم اور طبقہ کے جذبات کا استعمال نہیں کر رہے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ نہ ان کی لمبی سیاست کے لئے سود مند ہیں اور نہ ان کے لئے جن کے نام پر وہ سیاست کرتے ہیں اور شائد مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے نتائج سے ان کو یہ بات سمجھ بھی آ جانی چاہیے۔
اسدا لدین اویسی جنہوں نے یوروپ میں تعلیم حاصل کی اور ان کے والد بھی ایک اچھے سیاستداں تھے اس لئے مجھے ان سے یہ امید تھی کہ وہ اس کامیابی کے بعد انکساری کا مظاہرہ کریں گے لیکن جیت کے بعد انہوں جس زبان کا استعمال کیا اس میں تکبر اور غرور صاف نظر آ رہا تھا۔ 7 سیٹیں جیتنے والی پارٹی کے صدر کی تین ریاستوں میں طاقتور بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی پارٹی کے صدر کی زبان میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اسدالدین اویسی کی زبان میں تکبر تھا اور راہل گاندھی کے بیان میں انکساری نظر آ رہی تھی ۔ جیتنے کے بعد دونوں کے بیانات کے بعد خو د بخود یہ بات ذہن میں آئی کہ شائد یہ صحیح ہے کہ خالی برتن زیادہ شور مچاتا ہے۔
اگر اویسی حققیت میں فرقہ وارانہ سیاست کے مخالف ہیں تو ان کو پہل کرنی ہوگی اور صرف مسلمانوں کی بات کرنا بند کرنی ہوگی اور اگر وہ ایسا دلیل دے کر کریں گے کہ وہ بے زبان مسلمانوں کی زبان ہیں تو پھر ان کے حامیوں کو یوگی اور مودی کی سیاست سے نفرت نہیں کرنی چاہیے اور بلکہ ان کے حملوں اور سازشوں کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔ مسلمانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسدا الدین اویسی ان کے ہمدرد نہیں ہیں کیونکہ ان کی سیاست سے سخت گیر ہندو سیاست کو فروغ ملتا ہے اور اس چمن میں ایک رنگ کے پھول اگانے والی ذہنیت کو تقویت ملتی ہے۔ اویسی صاحب کچھ ماہ بعد عام انتخابات ہیں اگر آپ واقعی اپنے ووٹر س اور حامیوں کے ہمدرد ہیں تو سیاست کاانداز بدلیں اور فرقہ وارنہ سیاست سے با ز رہیں ۔ اسلام کیا کوئی بھی مذہب اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ گالی کا جواب گالی سے دیا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔