حقیقی گھریلو آمدنی میں غیر معمولی کمی، حکومت نے معیشت کو درپیش چیلنج سے آنکھیں بند کر لیں: کانگریس

جئے رمیش نے کہا کہ مرکزی بجٹ آیا اور چلا گیا لیکن غیر حیاتیاتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت نے ہندوستانی معیشت کو درپیش بنیادی چیلنج سے آنکھیں بند کر لی ہیں

جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کانگریس نے اتوار کے روز دعویٰ کیا کہ اجرت کے سست اضافہ اور کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے حقیقی گھریلو آمدنی میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے اور شترمرغ کے محاورے کی طرح حکومت نے ہندوستانی معیشت کو درپیش بنیادی چیلنج سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے کہا کہ ایک مشہور بروکریج کمپنی کی نئی رپورٹ نے ایک بار پھر اس سچائی کو بے نقاب کر دیا ہے جس سے مرکزی حکومت مسلسل انکار کر رہی ہے اور یہ کہ ’ہندوستان میں حقیقی گھریلو آمدنی مسلسل کم ہو رہی ہے۔‘

جئے رام رمیش نے کہا کہ غیر رجسٹرڈ انڈسٹریز کے سالانہ سروے (اے ایس یو ایس ای)، ریزرو بینک آف انڈیا کے کے ایل ای ایم ایس ڈیٹا اور گھریلو صارفین کے اخراجات کے سروے (ایچ سی ای ایس) سمیت کئی سروے اور ڈیٹا نے کام کرنے والے ہندوستانیوں میں مالی پریشانی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے متعدد ذرائع بشمول حکومت کے اپنے سرکاری اعداد و شمار بھی واضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کارکنوں کی قوت خرید آج 10 سال پہلے کی نسبت کم ہے۔


کانگریس لیڈر نے کہا، ’’لیبر بیورو کی اجرت کی شرح انڈیکس (سرکاری اعداد و شمار): کارکنوں کی حقیقی اجرت 2014-2023 کے درمیان مستحکم رہی اور 2019-2024 کے درمیان کمی واقع ہوئی۔ وزارت زراعت کے زرعی اعدادوشمار (سرکاری): ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں زرعی مزدوروں کی حقیقی اجرت میں ہر سال 6.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ ؎نریندر مودی کے دور میں زرعی مزدوروں کی حقیقی اجرت میں ہر سال 1.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘

جئے رام رمیش نے متواتر لیبر فورس سروے سیریز (سرکاری ڈیٹا) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2017 اور 2022 کے درمیان تمام قسم کے روزگاروں، تنخواہ دار کارکنان، غیر منظم شعبے کے کارکنان اور خود روزگار کارکنوں کی حقیقی آمدنی مستحکم ہو گئی ہے۔

انہوں نے سنٹر فار لیبر ریسرچ اینڈ ایکشن کے حوالے سے کہا کہ 2014 سے 2022 کے درمیان بھٹہ مزدوروں کی حقیقی اجرت یا تو جمود کا شکار ہو گئی ہے یا کم ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اینٹوں کے بھٹے پر کافی محنت کرنی پڑتی ہے اور یہ ہندوستان کے غریب ترین لوگوں کے لیے کم معاوضہ والا آخری راستہ ہیں۔

سینئر کانگریس لیڈر نے کہا، ’’8 اگست 2024 کو راجیہ سبھا میں فنانس بل پر اپنی مداخلت میں، میں نے غیر حیاتیاتی وزیر اعظم اور ان کے وزراء سے معیشت کی حالت پر چار براہ راست سوالات پوچھے تھے۔‘‘


انہوں نے کہا، "غیر حیاتیاتی وزیر اعظم نے ابھی تک ان پر اپنی خاموشی نہیں توڑی ہے، لہذا ان سے سوال دہرائے جانے چاہئیں، نجی سرمایہ کاری سست کیوں رہی؟ مجموعی سرمایہ کاری میں نجی شعبے کا حصہ چار سالوں میں کم ترین سطح پر کیوں آ گیا ہے؟‘‘

اس نے پوچھا، ’’کھپت میں اضافہ اتنا کمزور کیوں ہے؟ اور نجی حتمی کھپت کے اخراجات – جی ڈی پی کا سب سے بڑا حصہ – مالی سال 2014 میں صرف چار فیصد کے قریب کیوں بڑھے؟ حقیقی اجرت اور آمدنی کیوں جمود کا شکار یا گھٹ رہی ہے؟‘‘

کانگریس لیڈر نے کہا، ’’یو پی اے کے دور میں جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر مینوفیکچرنگ 16.5 فیصد سے گر کر اب 14.5 فیصد کیوں ہو گئی ہے؟ ٹیکسٹائل جیسے محنت کی اہمیت کے حامل مینوفیکچرنگ سیکٹرز میں یہ کمی خاص طور پر تیز کیوں ہوئی ہے؟ ہندوستان کی ٹیکسٹائل برآمدات 2013-14 میں 15 بلین ڈالر سے کم ہو کر 2023-24 میں 14.5 بلین ڈالر کیوں رہ گئی ہیں؟‘‘

جئے رمیش نے کہا، ’’مرکزی بجٹ آیا اور چلا گیا لیکن شتر مرغ والی کہاوت کی طرح غیر حیاتیاتی وزیر اعظم اور ان کی حکومت ہندوستانی معیشت کو درپیش سب سے بنیادی چیلنج سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔