چینی زبان میں شائع ہونے والے ہندوستان کے واحد اخبار ’سیونگ پاؤ‘ کی اشاعت پر لگا سوالیہ نشان!

اخبار کا آخری ایڈیشن مارچ 2020 میں کووڈ وبا کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن سے کچھ وقت پہلے شائع ہوا تھا، وبا کی پہلی لہر کے دوران اشاعت روک دی گئی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

قومی آواز بیورو

مغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتا سے چینی زبان میں شائع ہونے والا اخبار ’دی اوور سیز چائنیز کامرس آف انڈیا‘ جسے ’سیونگ پاؤ‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کی اشاعت بند ہو گئی ہے۔ یہ ملک کا غالباً واحد اخبار تھا جو چینی زبان میں شائع ہوتا تھا۔ کولکاتا میں تیزی کے ساتھ گھٹتے چینی طبقہ کے لیے یہ ایک جھٹکا تصور کیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس اخبار کا آخری ایڈیشن مارچ 2020 میں کووڈ وبا کے سبب ہوئے لاک ڈاؤن سے کچھ وقت پہلے شائع ہوا تھا۔ وبا کی پہلی لہر کے دوران اشاعت روک دی گئی تھی، لیکن اسی سال جولائی میں اس کے بزرگ مدیر کوتسائی چانگ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد یہ پوری طرح سے بند ہو گیا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اب اس اخبار کے شائع ہونے کے امکانات بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ لی یون چن کے ذریعہ 1969 میں جاری ’سیونگ پاؤ‘ ہندوستان کے پہلے چینی اخبار ’دی چائنیز جرنل آف انڈیا‘ کے اجرا کے 34 سال بعد شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق چار صفحات کا روزنامہ ’سیونگ پاؤ‘ چین، تائیوان، ہانگ کانگ اور کولکاتا کے اہم انگریزی روزناموں سے خبر یکجا کرتا تھا۔ ان کا منڈارن (چینی) زبان میں ترجمہ کرتا تھا۔ اس میں شادیوں، پیدائش اور انتقال کی سالانہ تقاریب اور دعوتوں کی ایک بڑی فہرست شائع ہوتی تھی۔

واضح رہے کہ کولکاتا کے ٹینگرا علاقے میں بڑی تعداد میں چینی طبقہ کے لوگ رہتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں نیو ٹینگرا روڈ پر ’سیونگ پاؤ‘ کا ادارتی دفتر کھولا گیا تھا۔ اس سے وہاں کافی چہل پہل رہتی تھی۔ اس وقت اس کی تقریباً 2000 کاپیاں شائع ہوتی تھیں، لیکن گھٹتی ہوئی چینی آبادی کے سبب دھیرے دھیرے اس اخبار کی اشاعت کم ہوتی گئی اور دفتر بھی دھیرے دھیرے سنسان ہو گیا۔ ایک شخص نے بتایا کہ اب ادارتی دفتر میں کرسیاں اور ڈیسک، ایک پرنٹر اور ایک کمپیوٹر پڑا ہے۔ مدیر کے انتقال کے بعد ان کے ساتھیوں نے تو آنا بھی بند کر دیا ہے اور پھر فرنیچر اور دیگر سامان چوری ہوتے چلے گئے۔


’چائنیز ایسو سی ایشن آف انڈیا‘ کے سربراہ چین یاؤ ہوا کا کہنا ہے کہ اخبار کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں چینی طبقہ میں بات ہو رہی ہے۔ اب جب کووڈ وبا ختم ہو گئی ہے تو پھر سے اسے شروع کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’لیکن ٹینگرا میں چینی آبادی جس تیزی سے گھٹ رہی ہے، اور کچھ نوجوان جو ابھی وہاں ہیں، ان میں سے بیشتر نہ تو چینی پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی چینی لکھ سکتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔