بلقیس بانو معاملہ کے قصورواروں کی سزا معافی کے خلاف عرضی، سپریم کورٹ میں آج ہوگی سماعت
سی پی ایم لیڈر و سماجی کارکن سبھاشنی علی، انسانی حقوق کی کارکن روپ ریکھا اور صحافی و مصنفہ ریوتی لال نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کر کے قصورواروں کی سزا معاف کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا ہے
نئی دہلی: سال 2002 کے گجرات فسادات میں ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی بلقیس بانو سے متعلق معاملہ کے 11 مجرموں کی سزا معافی اور جیل سے رہائی کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ آج سماعت کرنے جا رہا ہے۔ عرضی دائر کرنے والے وکلا میں سے ایک کپل سبل نے کہا تھا کہ ایک خاتون کے کنبہ کے 14 افراد کو قتل کیا گیا اور 5 مہینے کی حاملہ کی عصمت دری کی گئی، معاملہ کے قصورواروں کی رہائی سے متاثرہ صدمہ میں ہے، لہذا رہائی کے فیصلہ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر جلد سماعت پر رضامندی ظاہر کی تھی اور چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا تھا کہ وہ اس معاملہ پر غور کریں گے۔
خیال رہے کہ سی پی ایم لیڈر و سماجی کارکن سبھاشنی علی، انسانی حقوق کی کارکن روپ ریکھا اور صحافی و مصنفہ ریوتی لال نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کر کے قصورواروں کی سزا معاف کرنے کے فیصلہ کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی وکیل اپرنا بھٹ ہیں۔ ان تمام مجرموں کو 9 جولائی 1992 کی پالیسی کی تحت رہائی دی گئی ہے۔ تاہم 2014 میں ان پالیسی کے تحت سزا معافی پر کچھ شرائع بھی عائد کی گئی تھیں۔ الزام ہے کہ گجرات حکومت نے ان شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجتماعی عصمت دری جیسے گھناؤنے جرم کے قصورواروں کی سزا معاف کر کے انہیں رہا کر دیا۔
عرضی گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ قصورواروں کو دوبارہ گرفتار کر کے جیل بھیجا جائے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ معاملہ کی تفتیش سی بی آئی نے کی تھی اور سی بی آئی عدالت نے ہی عمر قید کی سزا سنائی تھی، لہذا گجرات حکومت مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ اپنے طور پر نہیں کر سکتی، اس کے لئے مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 435 کے تحت مرکزی وزارت داخلہ سے اجازت لینا لازمی ہے۔
یاد رہے کہ 2002 کے گودھرا ٹرین جلانے کے واقعے کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران فسادیوں نے بلقیس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی تھی۔ اس وقت وہ 21 سال کی تھیں اور پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ان کے خاندان کے 14 افراد کو فسادیوں نے قتل کر دیا تھا، تاہم موقع سے صرف 7 کی ہی لاشیں برآمد ہو سکی تھیں۔ ان کا کیس سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے حوالے کر دیا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے حکم پر ٹرائل گجرات سے مہاراشٹرا منتقل کر دیا گیا تھا۔
ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری اور خاندان کے 7 افراد کے قتل عام کے 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے بھی ان کی سزا کو برقرار رکھا۔ لیکن اب 14 سال کے بعد گجرات حکومت کے قائم کردہ پینل نے سزا معافی کے لیے ان کی درخواست کی منظور کرتے ہوئے تمام مجرموں کو رہا کر دیا۔
مجرموں کی رہائی کے فیصلے کے بعد بلقیس بانو نے کہا کہ اتنا بڑا اور غیر منصفانہ فیصلہ لینے سے پہلے کسی نے ان کی حفاظت کے بارے میں نہیں پوچھا۔ انہوں نے گجرات حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس فیصلہ کو تبدیل کر کے انہیں بغیر کسی خوف کے سکون سے جینے کا حق فراہم کرے۔ ایڈوکیٹ شوبھا نے بلقیس بانو کی طرف سے بیان جار کیا، جس میں انہوں نے کہا ’’دو روز قبل 15 اگست 2022 کو جب میں نے سنا کہ میرے خاندان اور میری زندگی کو برباد کرنے والے اور میری 3 سالہ بیٹی کو مجھ سے چھین لینے والے 11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا تو 20 سال پرانا خوفناک ماضی ایک بار مجھ پر صدمہ بن کر ٹوٹ پڑا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔