شہریت قانون: 80 بی جے پی لیڈروں نے پارٹی کو کیا ’خیر باد‘، کہا ’اب یہ سب کی پارٹی نہیں‘
بی جے پی اقلیتی سیل کے 80 سے زائد عہدیداروں نے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں ہندو-مسلم تفریق پھیلانے کی جگہ ملک کی معیشت و روزگار کی بات کرنی چاہیے۔‘‘
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی کو لے کر بی جے پی کے اندر بھی ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب مدھیہ پردیش بی جے پی اقلیتی سیل کے تقریباً چار درجن اراکین نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا، اور اب میڈیا ذرائع میں آ رہی خبروں کے مطابق 80 سے زائد بی جے پی لیڈروں نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بی جے پی سب کی پارٹی نہیں رہی، اس لیے جڑے رہنا ممکن نہیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ مدھیہ پردیش بی جے پی اقلیتی سیل میں شہریت قانون کو لے کر ایک ہنگامی حالت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس قانون کی وجہ سے اقلیتی سیل کے لیڈران میں ایک بے چینی بہت پہلے سے دیکھنے کو مل رہی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ بدھ (22 جنوری) کو اندور، مہو، دیواس اور کھرگون وغیرہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی اقلیتی سیل کے درجنوں عہدیداروں نے استعفیٰ دے دیا۔ بی جے پی کو الوداع کہنے والے ان لیڈران و کارکنان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہندو-مسلم ایشوز کا خاتمہ ہونا چاہیے، لیکن ایک کے بعد ایک ایشو سامنے آتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معیشت اور روزگار جیسے ایشوز پیچھے چھوٹتے چلے جا رہے ہیں۔
بی جے پی چھوڑنے والے لیڈران نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ ماحول میں ملک میں تفریق ہر طرف دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کشمیر سے دفعہ 370 ہٹایا گیا تو ہم لوگوں نے کہا کہ اچھا ہوا، ہم اس کے حق میں تھے کہ اب کشمیر میں ہم بھی جا کر رہ سکتے ہیں۔ تین طلاق ختم ہوا تب بھی ہم نے کوئی ہندو-مسلم نہیں کیا اور اس فیصلے کا استقبال کیا۔ بابری مسجد کے فیصلے میں بھی مانا کہ مندر کے ساتھ مسجد کو بھی جگہ دی جا رہی ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ اس ملک میں ہندو-مسلم کب تک چلے گا۔ ایک ایشو ختم ہوتا ہے تو دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔ روزانہ نئے نئے ایشوز سامنے لا دیے جاتے ہیں۔‘‘
بی جے پی اقلیتی سیل سے استعفیٰ دینے والے عہدیداروں نے اس وقت ملک کی معاشی حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس وقت ہندو-مسلم تفریق پیدا کرنے کی جگہ ملک کی معیشت بہتر کرنے اور روزگار پیدا کرنے کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ اس وقت ملک کی ترقی کی بات ہونی چاہیے۔ ناراض مستعفی لیڈروں نے بی جے پی میں بڑے عہدوں پر فائز لیڈروں کے طریقہ کار پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہم شہریت قانون کی مخالفت کرتے ہیں اور مجوزہ این آر سی کے ساتھ ہی این پی آر کی بھی مخالفت کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ 11 جنوری کو بھوپال بی جے پی اقلیتی سیل کے 48 اراکین نے شہریت قانون کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔ جن 48 اراکین نے پارٹی سے استعفیٰ دیا تھا ان میں اقلیتی سیل کے نائب صدر عادل خان بھی شامل تھے۔ انھوں نے شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کی مخالفت میں 11 جنوری کو استعفیٰ دیا اور پھر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے میڈیا سے پوچھا کہ ’’کیا آپ نے کبھی کسی ایسی حکومت کو دیکھا ہے جس نے پارلیمنٹ میں قانون پاس کرنے کے بعد اس کے لیے گھر گھر جا کر حمایت مانگی؟‘‘ پارٹی چھوڑنے والے اراکین نے بی جے پی ریاستی اقلیتی سیل کے صدر کو اپنا استعفیٰ نامہ سونپتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پارٹی شیاما پرساد مکھرجی اور اٹل بہاری واجپئی کے اصولوں پر عمل کرتی ہے، لیکن انھوں نے کسی کے ساتھ تفریق نہیں کیا اور اقلیتوں سمیت سبھی کو اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔‘‘
پارٹی چھوڑنے والے لیڈروں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ پارٹی میں کوئی جمہوریت باقی نہیں رہی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پوری پارٹی دو سے تین لوگوں کے بھروسے چھوڑ دی گئی ہے جو نقصان دہ ثابت ہوگی۔ حالانکہ بی جے پی نے ان الزامات کی تردید کی اور کانگریس و کمیونسٹ پارٹیوں پر انھیں گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ بی جے پی لیڈر گوپال بھارگو نے 48 بی جے پی کارکنان کے استعفیٰ کے تعلق سے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارے کارکنان کو گمراہ کیا گیا ہے جو اس ایشو کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے کارکنان کو ہی شہریت قانون سے متعلق صحیح چیز سمجھانے میں ناکام ہو رہی ہے تو پھر آخر وہ گھر گھر جا کر عام لوگوں کو کیسے سمجھا پائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس شہریت قانون کے متعلق پوچھے جا رہے سوال کا جواب ہی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی لیڈران و کارکنان دانشور طبقہ سے اس سلسلے میں بحث و مباحثہ سے پرہیز کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Jan 2020, 10:30 AM