مظفر نگر فساد: 41 میں سے 40 مقدمات میں تمام ملزمان بری! رپورٹ میں انکشاف
ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظفر نگر فساد سے متعلق بیشتر معاملوں میں پولس نے نہ ہی اہم گواہوں کا بیان درج کیا اور نہ ہی قتل میں استعمال کیے گئے اسلحوں کو عدالت میں پیش کیا۔
مظفر نگر فساد سے متعلق کئی مقدمات پر 2017 سے اب تک سماعتیں ہوئیں، لیکن اس کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ حیران کرنے والے ہیں۔ ایک تفتیش کے مطابق مظفر نگر میں سال 2013 میں ہوئے فساد میں کم از کم 65 لوگ مارے گئے تھے اور اس معاملے پر 2017 سے مظفر نگر کی عدالت نے 41 معاملوں میں فیصلہ سنایا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے قتل کے صرف ایک معاملے میں سزا کا فیصلہ آیا ہے۔ اس فساد کے دوران مسلمانوں پر ہوئے حملے کے باقی سبھی معاملوں میں ملزمین بری ہو گئے ہیں۔
یہ انکشاف انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ جانچ میں سامنے آیا ہے کہ پولس نے اہم گواہوں کے بیان ہی درج نہیں کیے اور پولس کی طرف سے قتل میں استعمال کیے گئے اسلحوں کو بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ کئی گواہ ایسے بھی سامنے آئے جنھوں نے عدالت میں گواہی کے وقت اپنا بیان ہی بدل دیا۔ اس طرح عدالت کے جو فیصلے آئے ان میں 41 میں سے 40 معاملوں میں ملزمین بری ہو گئے۔
قابل ذکر ہے کہ فساد کے سبھی معاملے اکھلیش یادو کی حکومت میں درج کیے گئے اور ان معاملوں کی سماعت اکھلیش حکومت کے ساتھ ہی بی جے پی حکومت میں بھی ہوئی۔ اس سال 8 فروری کو عدالت نے 7 ملزمین مزمل، مجسم، فرقان، ندیم، جہانگیر، افضل اور اقبال کو عمر قید کی سزا سنائی۔ ان لوگوں پر 27 اگست 2013 کو کاول گاؤں کے گورو اور سچن کے قتل کا الزام تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس قتل کے بعد ہی فساد برپا ہوئے تھے۔
’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نے 10 مقدموں سے جڑے شکایت دہندگان اور گواہوں سے بات چیت کے ساتھ ہی عدالتی ریکارڈ اور دستاویزوں کی جانچ کی۔ اس میں سامنے آیا کہ ایک فیملی کو زندہ جلا دیا گیا۔ علاوہ ازیں ایک شخص کے والد کا تلوار سے قتل کر دیا گیا۔ اس معاملے میں ملزم 53 لوگ کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، یہ حالت اجتماعی عصمت دری کے 4 معاملوں اور فسادات کے دیگر 26 معاملوں میں بھی دیکھنے کو ملی۔ یو پی حکومت نے اس تعلق سے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ان معاملوں میں اپیل نہیں کرے گی۔
انگریزی روزنامہ میں شائع رپورٹ میں سرکاری وکیل دشینت تیاگی کا ایک بیان بھی دیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم سال 2013 کے مظفر نگر فساد معاملہ میں کوئی اپیل نہیں کرنے جا رہے۔ ان معاملوں میں سبھی اہم گواہ اپنے بیان سے پلٹ گئے تھے۔ ان معاملوں میں ملزمین کے خلاف فرد جرم گواہوں کے بیان پر ہی درج کیے گئے تھے۔‘‘
انگریزی روزنامہ نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں حیران کرنے والی کئی باتیں پیش کی ہیں۔ اس رپورٹ میں قتل سے متعلق 10 کیس کا بہت باریکی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ شکایت میں 69 لوگوں کا نام درج تھا جب کہ صرف 24 لوگوں پر مقدمہ چلا۔ دیگر 45 لوگوں پر مقدمہ چلا ضرور، لیکن ان کا نام حقیقی شکایت میں درج ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی حیران کرنے والی ہے کہ سبھی شکایتوں میں قتل میں استعمال اسلحہ کا ذکر تھا لیکن پولس صرف 5 معاملوں میں ہی ثبوت برآمد کر پائی۔
اسیم الدین اور حلیمہ کے قتل معاملہ میں ’انڈین ایکسپریس‘ نے لکھا ہے کہ پولس نے ثبوتوں کی برآمدگی کے وقت دو آزاد گواہوں کا نام درج کیا تھا۔ دونوں گواہوں کا کہنا تھا کہ ان کی موجودگی میں کوئی ثبوت نہیں جمع کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ پولس نے انھیں خالی پیپر پر دستخط کرنے کے لیے کہا۔ علاوہ ازیں اسیم الدین اور حلیمہ معاملہ میں پولس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی پیش نہیں کی۔ تیتاوی میں تین لوگوں کے قتل سے متعلق بھی شائع رپورٹ میں تذکرہ ہے اور لکھا گیا ہے کہ تین لوگوں کے قتل میں پولس نے پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر سے کراس اگزامن نہیں کیا۔
ایک قتل معاملہ سے متعلق انگریزی روزنامہ نے لکھا ہے کہ ’’قتل کے ایک معاملہ میں زریف نے کہا کہ سنگین طور پر زخمی اس کے والد مرنے سے پہلے اپنا بیان درج کرنا چاہتے تھے لیکن پولس نے ان کا بیان درج نہیں کیا۔ پولس نے انھیں اسپتال لے جانے کی جگہ گھنٹوں انتظار کرایا۔‘‘ شائع رپورٹ کے مطابق زریف نے کہا کہ ملزمین کو بچانے کے لیے اہم ثبوتوں کو جمع نہیں کیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 19 Jul 2019, 10:10 AM