بغیر میناروں اور بغیر تاریخی فن تعمیر کا استعمال کیے تعمیر ہو رہی ’دھنی پور مسجد‘ بابری مسجد کا زخم بھر پائے گی!
دھنی پور مسجد کے وسیع احاطہ میں 300 بستروں والا ایک اسپتال، ایک میوزیم، ایک لائبریری اور ایک کمیونٹی کچن بنایا جا رہا ہے، لیکن کیا یہ بابری مسجد کی شہادت سے پیدا زخم کو بھر سکتا ہے؟
کیا یادیں مٹائی جا سکتی ہیں؟ کیا ایک ماڈرن اور مستقبل کو توجہ میں رکھ کر تعمیر کی جا رہی مسجد، جس میں کوئی مینار نہیں ہے اور جس کا اسلامی فن تعمیر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ماضی کے زخموں کو بھر سکتی ہے؟ سپریم کورٹ نے دو سال قبل ایودھیا تنازعہ کا نمٹارا کیا تھا۔ لیکن تنازعہ تو رکا نہیں۔ وارانسی، متھرا اور دیگر مقامات پر دیگر مساجد پر تازہ دعوے کیے جا رہے ہیں۔ عدالتی احکامات سے خیر سگالی بحال نہیں ہوئی، اور نہ ہی مسلمانوں، ان کی ثقافت اور ان کے کاروبار پر حملوں میں کمی آئی۔
ایودھیا کی 400 سال سے زیادہ قدیم بابری مسجد شہید کر جس رام مندر کا راستہ صاف کیا گیا، اس کی تعمیر کا کام تو دو سال پہلے آئے سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے سے بہت پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایک الگ مسجد کی تعمیر کے لیے اراضی فراہم کی جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو آج بھی مانا جاتا ہے کہ یہ انصاف کی بنیاد پر نہیں دیا گیا تھا، اور قانون کے اسکولوں میں اب بھی تحقیق کا موضوع ہے۔ اس دوران زیر تعمیر رام مندر سے 30 کلومیٹر دور ایک نئی مسجد کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
مسجد کی تعمیر انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف) ٹرسٹ کے ذریعہ کی جا رہی ہے۔ مسجد کا ڈیزائن دہلی واقع آرکیٹیکٹ ایس ایم اختر نے تیار کیا ہے۔ دھنی پور گاؤں میں بننے والی نئی مسجد کے اس ڈیزائن میں ایک محل نما عبادت گاہ بنائی جا رہی ہے جس میں 2000 افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ 300 بستروں والا ایک اسپتال بھی بنایا جا رہا ہے، اور ایک کمیونٹی کچن و ایک لائبریری بھی۔ مسجد کی تعمیر کا کام فی الحال شروع نہیں ہوا ہے، لیکن اسے فی الحال ’دھنی پور مسجد‘ نام دیا گیا ہے۔
بابری مسجد واقعہ کی برسی (6 دسمبر) پر منگل کے روز انڈین ایکسپریس میں اسکالر اور ریسرچر فہد زبیری کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں ’’مسجد ایک جدید عمارت ہے جس میں شیشہ، سفید کورنگ اور تکنیکی طور سے پیچیدہ جھروکے ہیں۔ اس کے ڈیزائن کو فیوچرسٹک یعنی مستقبل کو توجہ میں رکھ کر بنایا گیا، یہ کہا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اس میں ماحولیاتی تبدیلی کی حساسیت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن کیا مسجد صرف اتنی ہی ہوتی ہے، ایک شاندار عمارت بھر!‘‘ زبیری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’اس نئی جدید عمارت میں اس مسجد کا کوئی عکس ہی نہیں ہے جسے توڑ دیا گیا تھا۔ اس میں بابری مسجد کے فن تعمیر کا کوئی حوالہ ہی نہیں ہے، تاکہ لوگوں کو یاد دلایا جا سکے اس صدمہ کا، کہ کس طرح تشدد برپا ہوا تھا، کس طرح پولیس نے لوگوں پر فائرنگ کی تھی اور کیسے آخر کار ایک تاریخی مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔‘‘
زبیری کہتے ہیں کہ اپنے موجودہ وجود اور ماضی کے واقعات کے درمیان دوری بنانے کے پیچھے شاید شناخت چھپانے کی کوشش ہے تاکہ آنے والے وقت میں کسی قسم کی کوئی جدوجہد نہ دیکھنے کو ملے۔ لیکن ایسا ڈیزائن اس طبقہ کی بے عزتی کرتا ہے یا اسے بے اہمیت بناتا ہے جو پہلے سے ہی مظلوم ہے اور دن بہ دن بڑھتے وسیع اسلاموفوبیا کے ساتھ ساتھ ایک طے طریقے سے حاشیہ پر دھکیلا جا رہا ہے۔ اپنے مضنون میں زبیری لکھتے ہیں ’’اس تجویز نے ایک ایسے طبقہ کے مذہبی حقوق کو نظر انداز کیا جو اپنی ایک مذہبی عمارت پر حملے کا دفاع کر رہا تھا۔ اور اب جبکہ 30 سال گزر چکے ہیں، یہ حملے اب بھی رکے نہیں ہیں، بلکہ بڑھے ہیں۔‘‘
اور یہ بات یونہی نہیں کہی جا رہی۔ بابری مسجد انہدام کی برسی کے موقع پر تو ان میں تیزی آ ہی جاتی ہے۔ اتر پردیش کے متھرا میں ہی شاہی عیدگاہ مسجد میں ہندو مہاسبھا نے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھیں روکنے کے لیے پی اے سی اور نیم فوجی دستوں کے تقریباً 1500 جوانوں کو لگانا پڑا۔ لیکن ہندو مہاسبھا کے ٹریزرار دنیش کوشک نے تو اعلان کر دیا تھا کہ وہ رکیں گے نہیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے متھرا میں دفعہ 144 لگانے کی ضرورت پڑ گئی۔
دوسری طرف کرناٹک کے شری رنگاپٹن میں بھی ہندو جاگرن ویدیکے نام کے ادارہ نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر جامعہ مسجد میں گھسنے کی کوشش کی۔ انھیں روکنے کے لیے بھی کثیر تعداد میں پولیس کو تعینات کرنا پڑا۔ اسی قسم کے واقعات پر صحافی رعنا ایوب نے اپنے انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’بابری مسجد کی برسی 6 دسمبر پر جب میں اور میرے جیسے لاکھوں مسلمانوں کو عام ہندوستان سے الگ شکل میں دیکھا جانے لگا، تو اس موقع پر میں اپنے دوستوں سے پوچھنا چاہتی ہوں۔ آخر کب اس سب پر بولو گے یا رد عمل دو گے۔ اور کتنی بے عزتی اپنی روز مرہ کی زندگی میں برداشت کرو گے اور اس نفرت پر سوال اٹھاؤ گے؟‘‘
پروفیسر آڈری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے ’’ہندوستانی وراثت کے ایک انمول حصے کو آج سے 30 سال پہلے ایک بت پرست ہندو نیشنلسٹ بھیڑ نے تباہ کر دیا تھا۔‘‘ بابری ایک ایسا زخم ہے جس کی انتہا بغیر کسی معقول نتیجہ کے ہندوستان کی روح میں دبی ہوئی ہے۔ بھلے ہی اب یہ موجود نہیں ہے، لیکن اس کی موجودگی اب بھی نظر آ رہی ہے۔ بھلے ہی اسے ہندو نیشنلسٹ طاقتوں نے بے رحمی کے ساتھ تباہ کر دیا، لیکن ان کے ذہن میں یہ آج بھی ایک کانٹے کی طرح چبھتی ہے اور اسی وجہ سے یہ لگاتار نفرت اور کشیدگی کو فروغ دے رہا ہے۔
بیشتر شہر کھلے سرے والے ہیں اور اپنے ماضی کا سامنا کرتے ہیں، بھلے ہی ان کے بارے میں نئے طور سے لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ اسی لیے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے حال میں اپنا قدم رکھنے سے پہلے کیا اپنے ماضی کو دفن کر دیا ہے؟ انصاف، توبہ، یا یہاں تک کہ کسی قسم کی ہمدردی کی کوشش کے بغیر بابری مسجد کا بھوت ’حال‘ کو کوستا رہے گا!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔