زندگی کے 23 سال ہو گئے برباد، کیا یہی انصاف ہے؟... نواب اختر
مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے دعوے کے مطابق اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ’زیرو ٹالرینس‘ کی پالیسی پر چل رہی ہے تو ان بے گناہوں کی تلافی اور اصل دہشت گردوں کو سزا دلاکر اپنے قول کا ثبوت دے۔
ہمارے ملک میں مظالم اور ناانصافیوں کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس کا تازہ ثبوت کشمیر کے ان 3 شہریوں سے ہے جن کی زندگی کے ایک، دو نہیں بلکہ 23 قیمتی سال تباہ کردیئے گئے۔ جوانی، زندگی کا وہ پڑاؤ ہوتا ہے جب جسم میں کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے اور اس کو پورا کرنے کی طاقت اور توانائی بھی ہوتی ہے لیکن اگر کسی کی جوانی جیل کی چہار دیواریوں کے اندر قیدی بن کر گزر جائے، پھر دو دہائی گزرنے کے بعد ایک دن اسے رہا کر دیا جائے اور بتایا جائے کہ تمہارے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے، اس لئے رہا کیا جاتا ہے۔ ایسا ہی کشمیرکے 3 شہریوں محمد علی بھٹ (49 )، لطیف ( 40) اور مرزا نثار (44) کے ساتھ ہوا ہے۔ اپنی پوری جوانی جیل میں گزارنے کے بعد علی محمد بھٹ، لطیف اور مرزا نثار کوجرم ثابت نہ ہونے کے سبب عدالت نے رہا کر دیا ہے۔
نیپال بھی وہ ملک ہے جہاں سے ہندوستانی ریاستوں میں ہونے والے جرائم کے سلسلے میں گرفتاریاں کی جاتی ہیں ۔ان سبھی کو 1996 میں دہلی کے لاجپت نگر اور سروجنی نگر میں ہوئے بم دھماکوں میں شامل ہونے کے شک میں دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا۔ تینوں کو راجستھان پولس نے بعد میں اس الزام میں ماخوذ کیا کہ انہوں نے ونوسا کے مقام پر ایک بس کو نشانہ بنایا تھا۔ لاجپت نگر والے کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے ان تینوں کو 2012ء میں بری کردیا تھا لیکن ان کو جیل میں رہنا پڑا کیونکہ راجستھان ہائی کورٹ نے ان کے خلاف چل رہے مقدمہ کا فیصلہ نہیں سنایا تھا۔ حال ہی میں فیصلہ آنے کے بعد ان تینوں کو بری کردیا گیا۔
لطیف احمد کے مطابق ہم کو کاٹھمنڈو سے گرفتار کیا گیا جہاں ہم کشمیری دستکاروں کے تیار کیے ہوئے سامانوں کو فروخت کر رہا تھا، ہم سب بے قصور تھے۔ جب کوئی نیپال میں ہو تو وہ دہلی یا راجستھان میں بم کا استعمال کس طرح کرسکتا ہے لیکن ناکردہ گناہ میں ہم پرجس طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ناقابل بیان ہیں۔ ہم سے سادے کاغذوں پر دستخط کرائے گئے۔ بات صاف ہے کہ ہم کو زبردستی قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
متاثرہ افراد کی گرفتاری سے قبل اور رہائی کے بعد کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئیں جنہیں دیکھ کر ان لوگوں کی تکلیف اور بے بسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس وقت انہیں گرفتارکیا گیا تھا یہ سبھی عالم جوانی کے آخری دور میں تھے۔ انہیں کاٹھمنڈو سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ کبھی کبھی کشمیری دستکاری کا سامان فروخت کرنے جایا کرتے تھے، لیکن گرفتاری نے ان لوگوں سے جہاں والدین اور قریبی دوست چھین لئے وہیں پھلتا پھولتا کاروبار پوری طرح تباہ ہو گیا، ایسی حالت میں رہائی کا پروانہ پانے والے افراد بظاہرعدالت کے فیصلے سے خوش ہوں گے لیکن ان کے دلوں میں یہ سوال بھی ہوگا کہ جب زندگی کے قیمتی سال برباد ہو رہے تھے تب عدالت خاموش کیوں تھی؟علی اور ان کے دیگرساتھیوں کے ان 23 سالوں کو کون واپس لے کر دلائے گا اور اب یہ لوگوں کیا کریں گے؟ متاثرہ افراد اس بات سے بھی خوش ہوں گے کہ آخر میں کم از کم انصاف تو ملا، لیکن کیا سچ میں اسے انصاف کہا جانا چاہیے؟ اگر یہ انصاف ہے تو انہوں نے اس فیصلے کے لئے بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔
محمد علی بھٹ 23 سال کی غیر حاضری کے بعد اپنے وطن اسی ہفتہ کے شروع میں پہنچے تو ان کا استقبال کرنے والا کوئی شخص نہیں پہنچا۔ ان کی زندگی دہلی اور راجستھان کے قیدخانوں میں گزری اور ان کے والدین ان کو یاد کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ محمدعلی بھٹ کی والدہ کا انتقال 2002 میں ہوا اور والد کی وفات 2015 میں ہوئی۔ گرفتاری کے وقت محمدعلی کی عمر15سال تھی، اب ان کی عمر 48 سال ہے۔ گھر پہنچنے محمدعلی سیدھے قبرستان گئے جہاں والدین کی قبروں پر گر کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اس نے کہا کہ میری آدھی زندگی اس ناانصافی کی نذر ہوگئی میں بالکل ٹوٹ چکا ہوں۔ میرے والدین میری دنیا تھے اور دونوں رخصت ہوگئے۔ اس کی ذمہ داری کون لے گا۔
فتح کدل کے رہنے والے نثار نے کہا کہ جب ہم جیل میں تھے تو وقت تھم گیا تھا لیکن باہر کی دنیا متحرک تھی۔ میرے خیال میں اس نئی زندگی کا عادی بننے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ آزادی بہت مہنگی قیمت پر ملی ہے۔
اس دردناک واقعہ پر میڈیا کے ایک طبقے کو گویا سانپ سونگھ گیا ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے مذکورہ افراد کی گرفتاری کے وقت دہلی کو دہلانے والا خونخوار دہشت گرد کہا تھا مگر اب جب یہ لوگ بے قصور ثابت ہوئے ہیں تب وہی میڈیا انہیں بے گناہ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی اور جمہوری ملک ہوتا تو وہاں اس خبر پر تہلکہ مچ جاتا کہ 23 سال تک بے قصور جیل میں رکھا گیا اور بے داغ رہائی ہوئی، اس کے بعد ان کی کوئی تلافی بھی نہیں کی گئی۔
مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے دعوے کے مطابق اگر واقعی دہشت گردی کے خلاف ’زیروٹالرینس‘ کی پالیسی پر چل رہی ہے تو ان بے گناہوں کی تلافی اوراصل دہشت گردوں کو سزا دلا کر اپنے قول کا ثبوت دے۔ اس سلسلے چند اردو اخبارات نے ہمت دکھائی اور بڑی بڑی خبریں شائع کیں لیکن پارلیمنٹ کے اجلاس میں قوم کا رونا رونے والے ایک بھی ممبر پارلیمنٹ کو اس بدترین بے انصافی کا ذکر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ان حالات میں صاف ہے کہ ملک کی حکمراں یا غیر حکمراں قیادت سے کوئی امید کرنا بیکار ہے۔ اب لے دے کے عدلیہ پر نظر جاتی ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے بہت امیدیں ہیں۔ لیکن یہی عدالت حال ہی میں اپنی بے بسی ظاہر کر چکی ہے کہ مفاد عامہ کے بے شمار معاملات سے کس طرح نپٹا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفادعامہ کے فروعی معاملات کو سختی سے مسترد کیا جائے اور صرف انتہائی بھیانک مسائل کی جانب توجہ کی جائے۔
طویل جیل بندیوں کے سلسلے میں یہ حکم جاری کیا جاسکتا ہے کہ دس سال سے زیادہ قید رہنے والوں کی فہرست عدالت کے سامنے پیش کی جائے پھر ان میں سے مستحق معاملات میں کم از کم ایک کروڑ روپئے لواحقین میں ہر شخص کو دینے کا حکم جاری کیا جائے، متبادل ملازمت اور مکان کے سلسلے میں بھی حکم جاری کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور مسئلہ ایسا ہے جو بہت توجہ طلب ہے وہ یہ کہ ایسے کون لوگ ہیں جو فتنہ وفساد والے عناصر کی نمائندگی کرتے ہوئے بے قصور لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کرتے ہیں۔ کاٹھمنڈو میں تجارت کرنے والے کشمیری لوگوں پر دہلی میں بم پھینکنے کا الزام لگانا انتہائی مہمل بات ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مظلوموں کی داد رسی کے سلسلے میں زیادہ توجہ ہونا چاہیے۔ مقننہ اور انتظامیہ سے ہٹ کر عدلیہ سے بہت مدد مل سکتی ہے اور بہت سہارا مل سکتا ہے۔ حکومتوں کا ہر فیصلہ ووٹ بینک پر منحصر ہوتا ہے جب کہ انسانیت ہر ووٹ بینک کی سیاست سے بالاتر ہے۔ اس لئے اس انسانیت کی سربلندی کے بارے میں جس قدرعدالتیں فکر کرسکتی ہیں، ویسا کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Aug 2019, 7:10 PM