خوفزدہ 200 کشمیری طلبا نے پی ڈی پی وفد کے ساتھ دہرہ دون کو کہا خیرباد
روڑکی واقع کوانٹم یونیورسٹی سے سات کشمیری طلبا کو برخواست کیا گیا جن میں دو طالبات بھی شامل ہیں۔ یہ قدم تب اٹھایا گیا جب سوشل میڈیا پر انھوں نے پلوامہ حملہ سے متعلق کچھ پوسٹ کیا۔
دہرہ دون کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تقریباً 200 کشمیری طلباء نے منگل کی شب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) وفد کے ساتھ اس شہر سےکشمیر واقع اپنے گھر کی طرف روانگی اختیار کی۔ ان کشمیری طلباء کو دائیں بازو کی تنظیموں کے ذریعہ لگاتار ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ جموں و کشمیر کے پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد ان میں سے کچھ کشمیری طلباء تشدد کے شکار بھی ہوئے اور انھیں جسمانی طور پر زد و کوب کیا گیا۔
پی ڈی پی کا وفد طلباء کو کشمیر لے جانے کے لیے پیر کے روز دہرہ دون پہنچا تھا۔ اس وفد میں راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ میر محمد فیاض، سابق رکن اسمبلی اعجاز احمد میر اور پارٹی لیڈران وحید الرحمن و پرویز وفا وغیرہ شامل تھے۔ وفد کے اراکین نے دہرہ دون کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر کشمیری طلبا سے ملاقات کی اور ساتھ ہی اداروں کے سربراہ اور پولس افسران سے بھی بات چیت کی۔ انھوں نے کشمیری طلبا کو سیکورٹی فراہم کیے جانے سے متعلق یقین دہانی کرائی لیکن کئی طلبا کافی خوفزدہ تھے۔ مشکل حالات اور دائیں بازو سے جڑے لوگوں کے تشدد کے پیش نظر پی ڈی پی وفد نے 200 کشمیری طلبا کو کشمیر لے جانے کے لیے بس کا انتظام کیا اور یہ بات طے پائی کہ حالات بہتر ہو جانے پر وہ واپس لوٹ آئیں گے۔
دراصل دہرہ دون میں حالات اس وقت خراب ہو گئے جب ایک کشمیری طالب علم نے پلوامہ حملہ سے متعلق قابل اعتراض پوسٹ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ڈال دی۔ اس کے بعد پولس نے طالب علم کو حراست میں لے لیا لیکن دہرہ دون کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء دائیں بازو کی تنظیموں کا نشانہ بننے لگے۔ کچھ تعلیمی اداروں میں تو تحریری شکل میں یہ دینے کا دباؤ بنایا جانے لگا کہ وہ آئندہ سیشن سے کشمیری لڑکوں کو اپنے ادارے میں داخلہ نہ دیں۔ اس طرح کے دباؤ کے پیش نظر ایک پرائیویٹ کالج کے ڈین کو بھی نکال دیا گیا۔
طلباء کے کشمیر واپسی کے دوران میر واعظ نے موجودہ ماحول پر ایک ٹوئٹ کیا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’پلوامہ حملہ کے بعد پورے ملک میں ہمارے طلباء کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کا ایک سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں سختی کے ساتھ ایسے نفرت کی مذمت کرتا ہوں جو ہمارے طلباء میں خوف کا ماحول پیدا کرتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’’میں حیران ہوں کہ کیا یہ نریندر مودی کا ’نیو انڈیا‘ ہے یا پھر یہ گجرات ماڈل کو نافذ کرنے کی کوشش ہے۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ صرف 200 کشمیری طلباء ہی دہرہ دون سے کشمیر واپس ہوئے ہیں، بلکہ یہ تعداد تو کہیں زیادہ ہے اور یہ مزید بڑھے گی۔ جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ترجمان ناصر کا کہنا ہے کہ ’’800 سے زائد کشمیری طلباء دہرہ دون چھوڑ چکے ہیں اور وہ گھر پہنچنے والے ہیں۔ ہم ایک اور بس کا انتظام کر رہے ہیں جو 60 مزید طالب علموں کو آج دہرہ دون سے کشمیر لے کر آئے گا۔‘‘
اس درمیان سات کشمیری طلبا کو روڑکی واقع کوانٹم یونیورسٹی سے برخواست کر دیا گیا ہے۔ ان میں دو طالبات بھی شامل ہیں۔ یہ قدم تب اٹھایا گیا جب سوشل میڈیا پر انھوں نے پلوامہ حملہ سے متعلق کچھ پوسٹ کیا۔ یونیورسٹی کے کچھ طلباء نے الزام عائد کیا کہ ان کشمیری طلباء نے قابل اعتراض پوسٹ شیئر کیا اور پھر انھوں نے یونیورسٹی سے انھیں نکالنے کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی رجسٹرار آر کے کھرے کا کہنا ہے کہ ان سات طلبا کو برخواست کیا گیا کیونکہ یہ ’خطرناک سرگرمیوں‘ میں ملوث تھے۔ منگل کے روز یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباء نے قابل اعتراض سوشل میڈیا پوسٹ کرنے والے کشمیری طلباء کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Feb 2019, 4:09 PM