علی گڑھ کے بعد اب احمدآباد میں 20 دن کی معصوم بچی کا قتل
ابھی پورے ہندوستان میں علی گڑھ میں ہوئے معصوم بچی کے قتل کے واقعہ پر غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ احمدآباد سے ایک دل دہلانے والی خبر آئی ہے کہ وحشیوں نے 20 دن کی بچی کو مار دیا۔
علی گڑھ میں معصوم بچی کے وحشیانہ قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور جرم کے مرتکب لوگوں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے بلکہ ایسے مجرموں کو عوامی مقام پر سنگسار کرنا چاہیے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کسی بھی جرم کو صرف جرم کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے اور ایسے وحشیانہ جرم کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہیے۔ علی گڑھ معاملہ پر ایک ٹی وی کے سینئر اینکر بھوپیندر چوبے نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ ’’جس پیمانہ کا ظلم علی گڑھ میں مسلم مردوں نے کیا ہے اس نے مجھے مجبور کیا کہ میں عصمت دری اور جرائم کے خلاف سزائے موت کے لئے مہم چلاؤں‘‘۔ چوبے جی اگر اپنے ٹوئٹ میں لفظ مسلم نہیں استعمال کرتے اور صرف مجرم لفظ سے کام چلا لیتے تو بہت اچھا ہوتا مگر اس لفظ کے استعمال سے ان کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اب ایک اور دل دہلا دینے والی خبر آئی ہے اور وہ اس ریاست سے آئی ہے جو ہمارے ملک کی ماڈل ریاست ہے۔ یعنی گجرات کے احمدآباد سے خبر آئی ہے کہ میگھنانی نگر میں پولس نے پانچ میں سے ان دو ملزمان کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے اپنی پرانی رنجش کی وجہ سے ایک گھر پر حملہ کیا اور حملہ میں انہوں نے 20 دن کی بچی کو مار دیا۔ پولس کے مطابق جمعہ کے روز دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پرانی دشمنی کی وجہ سے لکشمی پٹنی کے گھر میں 5 لوگوں نے حملہ کیا اور حملہ کے وقت گھر میں دو اور خواتین بھی موجود تھیں۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق پولس انسپکٹر پی جی سرویہ نے بتایا کہ ’’حملہ آوروں نے جمعرات کے روز گھر میں گھس کر 3 خواتین پر لاٹھی ڈنڈوں سے حملہ کیا، انہوں نے اس حملہ میں لکشمی کی 20 دن کی بیٹی خشبو کے سر ڈنڈے سے حملہ کیا جس سے اس کی موت ہو گئی‘‘۔
جمعہ کو پولس نے بتایا کہ اس نے ستیش پٹنی اور ہتیش مارواڑی کو اس جرم کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں مقامی غنڈے ہیں اور ستیش پٹنی کے خلاف پہلے سے ہی جرائم کے دس کیس چل رہے ہیں۔
ڈھائی سال کی بچی کو قتل کیا جائے یا پھر 20 دن کی معصوم بچی کا قتل کیا جائے دونوں ہی معاملوں میں قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے اور جو لوگ جرائم کو بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔