نوٹ بندی کے 2 سال: عوام کو جوکر بنا دینے والا سرکاری سرکس

نوٹ بندی کے دو برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن حکومت، وزیراعظم یا وزیر خزانہ سے کوئی میڈیا یہ سوال نہیں پوچھ رہا ہے کہ آخر اس کا فائدہ کیا ہوا؟ دراصل نوٹ بندی سے فائدہ نہیں الٹے نقصان ہو ا ہے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

قومی آواز بیورو

جیمس ولسن اور نند کمار کے

8 نومبر کو نوٹ بندی کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس کے مختلف پہلؤں پر کئی حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ نوٹ بندی نے عام لوگوں کی زندگی دشوار بنا دی تھی اور اس فیصلے کے نفاذ میں بین الاقوامی اتحاد کا دباؤ کام کر رہا تھا جو اب سامنے آ چکا ہے۔

اس مضمون میں ہم سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر نوٹ بندی کے پیچھے حکومتی منشا کیا تھی؟۔

دو سال قبل 8 نومبر کی شام تقریباً 8.30 بجے وزیر اعظم نے ڈرامائی انداز میں ایک مبینہ کلیدی ہتھیار چلایا اور دعویٰ کیا کہ کالا دھن، نوٹ بندی، جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے تین منہ والے آسیب کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کلیدی ہتھیار کے دریافت کاروں کا خیال تھا کہ یہی وہ آسیب ہے جو ہندوستان کو اونچی پرواز بھرنے سے روکے ہوئے ہے۔ لفاظی کے فن میں ماہر جادوگر کو اپنے اس کلیدی ہتھیار پر اتنا زیادہ بھروسہ تھا کہ اس نے کہہ دیا کہ محض 50 دنوں میں ملک کے شہریوں کے تمام مسائل کافور ہو جائیں گے۔ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر کلیدی ہتھیار ناکا م ہو جائے تو اسے چوراہے پر سزا دے دینا۔

ملک کے اس عظیم فنکار کی باتوں سے اندھے عقیدے میں مبتلا لوگ اور میڈیا مسحور ہو گئے۔ بھرے ہوئے گلے، ڈبڈبائی آنکھوں سے جذبات کا وہ سمندر امنڈا جو ملک کی آزادی حاصل ہونے پر بھی نہیں امنڈا تھا۔ چند لوگوں کو چھوڑ کر ہر شخص یہ یقین کر بیٹھا تھا کہ ’سوچھ بھارت‘ کا خواب شرمندہ تعبیر بس ہونے ہی والا ہے۔

طلسم آخر طلسم ہی ہوتا جسے آخر ٹوٹنا ہی تھا، لوگوں میں افراتفری مچنی شروع ہو گئی۔ بینکوں کے باہر قطاریں لگنی شروع ہو گئیں، اسپتالوں میں بل ادا نہ کرنے کے سبب لوگوں کا علاج مشکل ہو گیا، جو وقت کام کرتے گزرنا چاہیے تھا وہ اے ٹی ایم کے سامنے لگی لائن میں خرچ ہونے لگا، یہاں تک کہ قطاروں میں کئی لوگوں کی جانیں بھی جانے لگیں۔ اے ٹی ایم یا تو خالی تھے یا پھر نوٹ اگلنے میں بے بس! تقریباً ہر گھنٹہ ایک نیا اصول، نیا قانون منظر عام پر آنے لگا۔ افواہوں نے سر اٹھانا شروع کردیا کہ نئے نوٹوں میں ایسی چِپ نصب ہے جو قبرستان سے بھی کالے دھن کو کھینچ کر باہر نکال لے گی۔ دریاؤں میں پرانے نوٹ تیرتے ہوئے نظر آنے لگے، کل ملاکر ایک سرکس شروع ہو گیا اور لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ لوگ اس سرکس میں جوکر بن چکے ہیں۔

جس جرات اور بے رحمی سے بہانے اور افسانے گڑھے گئے وہ قابل دید تھے۔ جس میڈیا کو نوٹ بندی کے فیصلے پر سوال اٹھانے تھے وہ نوٹوں میں لگی چِپ کی تعریفیں بیان کر رہے تھے۔

نوٹ بندی نے ملک کی دیہی اور غیر رسمی معیشت کو جس طرح منہدم کیا اس کی خانہ پوری آج تک نہیں ہو پائی ہے۔ وزیر اعظم نے 50 دن مانگے تھے لیکن صرف چلن میں رہے نوٹوں کی واپسی میں ہی 9 مہینے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ میڈیکل سائنس میں پڑھایا جاتا ہے کہ اگر دل میں ایک مقررہ وقفہ تک خون نہ پہنچے تو رگیں خراب ہونے لگتی ہیں اور اس وقفہ کے بعد خون کا دوران شروع بھی ہوتا ہے تو دل اپنی پوری صلاحیت سے کام نہیں کر پاتا۔ عین یہی حال ہماری معیشت کے ساتھ اس وقت گزرا جب چلن میں رہی نقدی کا 86 فیصد منسوخ کر دیا گیا۔

ان 9 مہینوں کے دوران ملک کی شرح ترقی 2 فیصد گر گئی، ہزاروں، لاکھوں چھوٹی صنعتیں تباہ ہو گئیں اور لوگوں کے سامنے روزگار زندگی کا سوال کھڑا ہو گیا۔ خریدار نہ ہونے سے منڈیوں میں فصلیں خراب ہونے لگیں۔ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا کہ کلیدی ہتھیار صرف امیروں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے، وہی اس کی زد میں آئیں گے۔ لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ ’جن دھن‘ کھاتوں سے ہی لاکھوں، کروڑوں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں، لوگوں کو اس پر یقین کرنا مشکل ہو گیا۔

تو کیا نوٹ بندی کو جن وعدوں اور دعووں کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا، وہ پورے ہو سکے! سرکاری اعداد و شمار کی مدد سے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

پرانے نوٹوں کی گھر (بینک) واپسی

راقم الحروف نے دسمبر 2016 میں ہی امکان ظاہر کر دیا تھا کہ تقریباً 15 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ واپس آ جائیں گے، اب اس پر مہر لگ چکی ہے۔ آر بی آئی نے 18-2017 کی رپورٹ میں واضح کر دیا ہے کہ 24 اگست 2018 تک اس کے پاس 15.311 کروڑ واپس آ گئے ہیں۔ یعنی جتنی کرنسی چلن میں تھی اس کا 99.2 فیصد بینکوں میں واپس آ گیا ہے۔

ان حقائق سے پردہ اٹھنے کے ساتھ ہی ان لوگوں کے ارمانوں پر پانی پھر گیا جو کہہ رہے تھے کہ نوٹ بندی سے لاکھوں کروڑ کا فائدہ ہوگا۔

بازار میں موجود کرنسی سے زیادہ پرانے نوٹ واپس آ گئے

آر بی آئی پارلیمنٹ کو اس امر سے واقف کرا چکا ہے جس وقت نوٹ بندی کا اعلان ہوا تھا تو 500 روپے کے 17165 ملین اور 1000 کے 6858 ملین نوٹ یعنی کل 15.55 لاکھ کروڑ روپے کے نوٹ چلن میں تھے۔ لیکن آر بی آئی کی 18-2017 کی سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 500 کے 20024 نوٹ اور 1000 کے 6847 نوٹ خراب تھے جنہیں ختم کر دیا گیا۔ اگر انہیں بھی واپس ہوئے نوٹوں میں شامل کر لیا جائے تو چلن والی کرنسی 16.859 ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ یعنی چلن میں جتنی کرنسی تھی اس سے زیادہ کے نوٹ بینکوں میں واپس آ چکے ہیں۔

ہندوستانی کرنسی میں جعلی نوٹ

نوٹ بندی کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی گنائی گئی تھی کہ سرحد پار سے جاری دہشت گردی کو جعلی ہندوستانی کرنسی سے مدد ملتی ہے اور نوٹ بندی سے اس کی کمر ٹوٹ جائے گی، (مودی) بھگتوں نے اسے بھی خوب اچھالا۔ بھگتوں کو لگا کہ کل نقدی میں سے صرف 11-12 لاکھ کروڑ ہی واپس آئیں گے کیونکہ بہت سارے جعلی نوٹ چلن میں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آر بی آئی کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض 58.3 کروڑ کے ہی جعلی نوٹ چلن میں تھے جو کل کرنسی کا محض 0.0034 فیصد ہی تھا۔ غور طلب ہے کہ نوٹ بندی سے پہلے ہی ملک کی ایجنسیاں 70 کروڑ سے زیاد کی جعلی کرنسی ہر سال برآمد کرتی رہی ہیں۔

چوہے کو باہر نکالنے کے لئے محل نذر آتش !

دعوی کیا گیا کہ نئے رنگ اور سائز کے نوٹوں کی نقل کرنا ممکن نہیں، لیکن نئے نوٹ بازار میں آنے کے چند مہینے بعد ہی نئی کرنسی کے جعلی نوٹ بھی پکڑ میں آنے لگے۔ اب تک تقریباً 4.2 کروڑ کے جعلی نوٹوں کو تو تنہا آر بی آئی نے ہی نشاندہی کر لی ہے، اس میں الگ الگ ایجنسیوں کی طرف سے برآمد کئے گئے نوٹ شامل نہیں ہیں۔

آج نقد ، کل ادھار

جب نوٹ بندی کے تمام اہداف غلط ثابت ہونے لگے اور حکومت کو لعن تعن کی جانے لگی تو وزراء اور ترجمان نے کہنا شروع کردیا کہ اصل ہدف تو ’کیش لیس اکنامی‘ یعنی نقد سے پاک معیشت کی تعمیر کرنا اور ملک کو ڈیجیٹل اکنامی کی جانب گامزن کرنا تھا۔ لیکن اگر آر بی آئی کے ذریعہ ڈیجیٹل لین دین کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اس شعبہ میں بھی حکومت کے ہاتھ خالی ہی ملیں گے۔ ملک میں 10 اکتوبر 2018 تک کل 19.688 لاکھ کروڑ کی نقدی چلن میں تھی جو کہ نومبر 2016 کے مقابلہ 1.711 لاکھ کروڑ روپے زیادہ ہے۔ اتنا ہی نہیں، اگست 2016 تک ہر مہینے 2.20 لاکھ کروڑ روپے اے ٹی ایم سے نکالے جاتے تھے لیکن 2018 کے اگست مہینے تک 2.76 لاکھ کروڑ روپے نکال لئے گئے۔

کیا ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہوا؟

آر بی آئی کی 18-2017 کی سالانہ رپورٹ آنے کے فوراً بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے فیس بک پوسٹ لکھی۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ نوٹ بندی کے بعد سے انکم ٹیکس جمع کرنے والے اور ریٹرن فائل کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ نیز یہ کہ نوٹ بندی کا اصل مقصد ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنا تھا۔ لیکن حقیقت کا اندازہ انکم ٹیکس کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل ٹیبل میں دیکھیں کہ ٹیکس دہندگان کی تعدد میں خاصہ فرق نہیں آیا ہے۔

نوٹ بندی کے 2 سال: عوام کو جوکر بنا دینے والا سرکاری سرکس

مندرجہ ذیل گراف سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد اور انکم ٹیکس سے آمدنی میں اضافہ یو پی اے کی مدت کار میں شروع ہوگیا تھا۔

نوٹ بندی کے 2 سال: عوام کو جوکر بنا دینے والا سرکاری سرکس

علاوہ ازیں ٹیبل سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ یو پی اے کی 10 سال (2004-2014) حکمرانی میں ٹیکس میں اضافہ اوسطاً 20.2 فیصد تھا جبکہ مودی حکومت کے پہلے 4 سال (2014-2018)کے دوران یہ اوسطاً 12 فیصد ہے۔ اسی طرح یو پی اے کی حکمرانی میں ٹیکس کے تئیں جوش 1.33 فیصد تھا جو مودی کی حکمرانی میں گرکر 1.17 ہی رہ گیا ہے۔

نوٹ بندی کے 2 سال: عوام کو جوکر بنا دینے والا سرکاری سرکس

ان تمام اعداد و شمار کو اس ضمن میں دیکھنا چاہیے کہ مودی تو ہندوستان کو صاف (سوچھ) بنانے کے وعدے کے ساتھ وزیر اعظم بنے تھے، کالے دھن پر براہ راست حملہ کا اعلان تھا لیکن تمام دعووں اور یلغاروں کے باوجود منموہن سنگھ کی حکمرانی کے دوران ملکی معیشت کی جو کارکردگی تھی اسے مودی حکومت چھو بھی نہیں پائی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Nov 2018, 1:09 PM