لکھنؤ: دو مقامات پر سی اے اے مخالف مظاہرہ ملتوی، خواتین نے بطور علامت چھوڑا دوپٹہ
احتجاج پر بیٹھی خواتین نے کہا کہ ہم اس وقت تک کے لیے اپنا احتجاج ملتوی کر رہے ہیں جب تک لاک ڈاؤن کی حالت ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد یہ لڑائی دوبارہ شروع ہوگی۔
لکھنؤ: دھرنا پر بیٹھی خواتین نے آخر کار فیصلہ کیا کہ حسین آباد گھنٹہ گھر اور اجریاؤں میں سی اے اے اور این آر سی کے حوالے سے ہونے والے مظاہروں کو فی الحال ملتوی کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ کورونا کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ جس کے بعد 66 دن تک جاری دھرنے کو اس وعدے کے بعد ملتوی کر دیا ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد دوبارہ گھنٹہ گھر پر مظاہرہ شروع کیا جائے گا۔
در اصل اتر پردیش کی پولیس نے مظاہرہ کو لے کر روز اول سے ہی خواتین کو نہ صرف پریشان کرنا شروع کردیا تھا بلکہ ان کو زد و کوب کرنے کی ایک مہم چھیڑ رکھی تھی۔ مظاہرہ کرنے والی خواتین کے رشتہ دار کچھ دوری پر کھڑے ہو کر اپنی مستورات کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، پولیس نے ان میں سے متعدد کو اپنا نشانہ بنایا اور حوالات کی ہوا کھلائی۔
آئیے آپ کو بتادیں کہ یہ دھرنا مظاہرہ 17 جنوری سے جاری تھا۔ مظاہرین خواتین نے یہ فیصلہ اتوار کی رات 3 بجے لیا جس کے بعد انہیں پولیس کی نگرانی میں گھر لے جایا گیا۔ در اصل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر مولانا سید کلب صادق نے گزشتہ مہینے دھرنے کی جگہ پہنچ کر خواتین کا حوصلہ بڑھایا تھا، ہر چند کہ وہ بیماری کے عالم میں ہیں مگر انہوں نے خواتین سے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی بہادر عورتوں کو نہیں دیکھا جو اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ دن و رات ظالم قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔ مظاہرے کو ختم کرانے میں ڈاکٹر کلب صادق نے اہم رول ادا کیا اور انہوں نے خواتین سے یہ اپیل کہ وہ فی الحال مظاہرہ ملتوی کردیں اور حالات ساز گار ہونے کی صورت میں دوبارہ دھرنا و مظاہرہ شروع کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صادق اور مشہور معالج ڈاکٹر کوثر عثمان کے سمجھانے کے بعد خواتین نے رہائی منچ کی مرضی سے اپنا احتجاج ملتوی کر دیا ہے۔
مظاہرے میں شامل عورتوں نے سردی اور طوفانی بارش میں بھی اپنی تحریک کو چھوڑنے کی ہر پولیس اور سرکاری کوشش کو ناکام کر دیا تھا اور ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یوگی حکومت نے اپنی بدنامی کو مد نظر رکھتے ہوئے ’سام، دام، ڈنڈ، بھید‘ کے چانکیہ فارمولے کو بھی استعمال کیا مگر کامیابی نہیں ملی۔
احتجاج پر بیٹھی خواتین کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک اپنا احتجاج ملتوی کررہیں ہیں جب تک کہ حکومت لاک ڈاؤن کے خاتمے کا اعلان نہیں کرتی ہے، ہم لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اس لڑائی کو دوبارہ جاری رکھیں گے۔ تاہم، مظاہرے کی جگہ خالی کرنے کے بعد بھی خواتین اپنے دوپٹوں کو وہاں ایک علامتی مظاہرے کے لئے چھوڑ گئیں ہیں۔ وہاں بیٹھی خواتین کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم میں سے کسی کو کورونا جیسی متعدی بیماری ہو جاتی ہے تو ہماری مہم ناکام ہوجائے گی۔ اس بیچ سرکاری عملہ نے چین کی سانس لیتے ہوئے کہا کہ حسین آباد گھنٹہ گھر کی ہڑتال اب ختم ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہلی کے شاہین باغ میں بھی سی اے اے اور این آر سی کے حوالے سے احتجاج جاری ہے، حالانکہ وہاں دھرنا نہیں رکا ہے لیکن مظاہرین کی تعداد میں یقینی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔
واضح ہو کہ لکھنؤ میں دو مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی تھیں، حسین آباد گھنٹہ گھر کے علاوہ اجریاؤں کے مقام پر بھی خاصی تعداد میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف عورتوں کا دھرنا جاری تھا۔ اب ان دونوں مقامات کے مظاہروں کو کورونا کے خاتمے تک موقوف کردیا گیا ہے۔ لیکن خواتین نے رہائی منچ کے دفتر میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں یہ باور کرایا کہ وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں ہیں اور اب ان کو دو لڑائیاں ایک ساتھ لڑنی ہوں گی۔ یعنی سی اے اے اور کرونا وائرس کے خلاف۔
پریس کانفرنس سے عذرا، عروسہ رانا، ثناء، ساحر فاطمہ، عرشی خان، ثناء ہاشمی، نجمہ ہاشمی اور نزہت نے خطاب کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے لکھے ہوئے خط پر پولیس کمشنر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جب بھی اس مہلک بیماری کا خاتمہ ہوگا اس کے بعد ہم جمہوری طریقہ سے احتجاج جاری رکھ سکیں گے۔ خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ گھنٹہ گھر کے علاوہ دیگر مقامات پر احتجاج کے دوران جن مظاہرین پر مقدمہ دائر کیے گئے ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے اور گھنٹہ گھر سمیت ملک بھر میں سی اے اے تحریک کے دوران گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے۔
خواتین نے کہا کہ ہم ہر جنگ میں ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، چاہے وہ آئین کو بچانا ہو یا کورونا کو بھگانا ہو۔ یوم شہدا پر، خواتین نے بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو کو یاد کیا اور کہا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے خون سے اس ملک کوسینچا ہے، کتنی رانی لکشمی بائی، جھلکڑی بائی، فاطمہ، ساوتری پھولے، بی امہ، بیگم حضرت محل جیسی خواتین نے اس ملک کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔
خواتین نے انتظامیہ سے کہا کہ اگر ان کے علامتی احتجاج میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو وہ اس سے زیادہ تعداد میں آئیں گی۔ خواتین نے انتظامیہ کو ایک خط بھی دیا ہے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ہم احتجاج کے مقام سے جا رہے ہیں، احتجاج کو ختم نہیں کر رہے ہیں، صرف احتجاج کا راستہ تبدیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو ان کی علامتی ہڑتال میں تعاون کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔