کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 129 واں دن
گرمائی راجدھانی سرینگر کے بیشتر حصوں میں بدھ کے روز دکانیں اور تجارتی مراکز سہ پہر تک کھلے رہے اور پبلک و نجی ٹرانسپورٹ کی آواجائی دن بھر جاری رہی
سری نگر: گرمائی راجدھانی سرینگر کے بیشتر حصوں میں بدھ کے روز دکانیں اور تجارتی مراکز سہ پہر تک کھلے رہے اور پبلک و نجی ٹرانسپورٹ کی آواجائی دن بھر جاری رہی۔ بتادیں کہ منگل کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر شہر سری نگر کے پائین وبالائی علاقوں کے بازاروں میں بیشتر دکانیں بطور احتجاج بند رہیں تاہم سال گزشتہ کے عین برعکس امسال اس موقع پر لال چوک میں واقع پرتاب پارک مقفل نہیں کی گئی تھی۔
ادھر وادی میں پانچ اگست کو خصوصی پوزیشن کی منسوخی اور ریاست کے بٹوارے کے خلاف شروع ہونے والی ہڑتال کا تھوڑا بہت اثر بدھ کو مسلسل 129 ویں دن بھی دیکھنے کو ملا کیونکہ سری نگر کے کچھ حصوں بالخصوں سول لائنز اور پائین شہر میں دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز سہ پہر ہونے سے پہلے ہی بند ہوگئے تاہم پبلک و نجی ٹرانسپورٹ کی آمدورفت دن بھر جاری رہی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق سری نگر کو چھوڑ کر وادی کے دیگر 9 اضلاع میں معمولات زندگی تقریباً پٹری پر آچکے ہیں اور جنوب سے لیکر شمال تک کے تمام بازار دن بھر کھلے رہتے ہیں اور سڑکوں پر بھی گاڑیوں کی آمدورفت بغیر کسی خلل کے جاری و ساری رہتی ہے۔
سرکاری ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ وادی بھر میں معمولات زندگی بحال ہوچکے ہیں اور پتھرائو کے واقعات پر بھی مکمل طور پر بریک لگ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کے فیصلوں کے تناظر میں وادی میں جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں وہ سبھی پابندیاں ہٹائی جاچکی ہیں۔ وادی کے سیاسی لیڈران، جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں، مسلسل خانہ یا تھانہ نظر ہیں۔ انتظامیہ نے جہاں ایک طرف محبوس لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا ہے وہیں سردی کے پیش نظر متذکرہ تین سابق وزرائے اعلیٰ کو جموں منتقل کئے جانے کا امکان ہے۔ وادی بھر میں ہر طرح کی انٹرنیٹ خدمات لگاتار معطل رکھی گئی ہیں جس کی وجہ سے اہلیان وادی بالخصوص کاروباری افراد، طلبا اور صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اگرچہ وادی میں منگل کے روز مشین (کمپیوٹر) سے جنریٹ ہونے والی ایس ایم ایس سروس بحال کردی گئی جس کی وجہ سے طلبا، تجار اور روزگار کے متلاشی افراد کو بڑی راحت نصیب ہوئی تاہم معمول کی ایس ایم ایس سروس لگاتار معطل رکھی گئی ہے۔ طلبا، تجار اور روزگار کے متلاشی افراد جنہیں موبائل فون پر او ٹی پی نہ آنے کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، نے اس سروس کی بحالی پر چین کا سانس لیا ہے۔
ارباب اقتدار کی طرف سے براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کو جلدی بحال کرنے کے اعلان کے باوجود بھی فی الوقت تمام طرح کی انٹرنیٹ خدمات بحال ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔جموں وکشمیر حکومت انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کی کوئی بھی تاریخ مقرر کرنے سے انکار کررہی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو نے حال ہی میں شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران وادی کی صورتحال کو بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ خدمات کو مرحلہ وار طور پر بحال کیا جائے گا تاہم انہوں نے کوئی بھی ڈیٹ لائن مقرر کرنے سے صاف انکار کیا۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے جب رواں برس کے پانچ اگست کو مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے منسوخ کیں اور اس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کیا تو ایک دن قبل ہی یعنی چار اگست کی شام کو وادی کشمیر میں ہر طرح کی فون اور انٹرنیٹ خدمات منقطع کی گئیں۔
اگست کے تیسرے ہفتے میں بی ایس این ایل لینڈ لائن فون خدمات کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا اور ستمبر کے پہلے ہفتے تک وادی کے تمام علاقوں میں لینڈ لائن فون خدمات بحال کی گئیں۔ وادی میں 14 اکتوبر کو 71 دنوں کے بعد پوسٹ پیڈ موبائل فون خدمات بحال کی گئیں۔ فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کے ایک ہفتے بعد جموں وکشمیر حکومت نے سری نگر کے سونہ وار نامی علاقہ میں اقوام متحدہ فوجی مبصر کے دفتر کے عقب میں واقع ایک نجی ہوٹل میں میڈیا سینٹر قائم کیا جہاں انٹرنیٹ کنکشن سے لیس چار کمپیوٹر اور ایک موبائل فون دستیاب رکھا گیا۔ چند ہفتوں کے بعد کمپیوٹرس کی تعداد بڑھا کر سات کی گئی اور پھر مزید تین کمپیوٹروں کا اضافہ کرکے یہ تعداد بڑھ کر دس ہوگئی۔
صحافیوں کے لئے سونہ وار کے ایک نجی ہوٹل میں قائم 'میڈیا سنٹر' کو 18 اکتوبر کو محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے دفتر کے ایک چھوٹے کمرے میں منتقل کیا گیا۔ چند دن پہلے ایک خاتون صحافی کے ٹوئٹ کے بعد خواتین صحافیوں کے لئے ایک الگ کمرہ مخصوص رکھا گیا۔ سری نگر نشین صحافیوں جن کی تعداد پانچ سو سے زیادہ بتائی جارہی ہے، کو سخت سردی، شدید دھند اور برف و باراں کے درمیان ہر صبح اور شام کے وقت سرکاری میڈیا سنٹر میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ سری نگر سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کی اشاعت بھی اسی میڈیا سینٹر پر منحصر ہے۔ تاہم اخبارات کے وہ رپورٹر جو اضلاع سے رپورٹ کرتے تھے، پانچ اگست سے انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کے انتظار میں ہیں۔ سرکاری میڈیا سینٹر میں صحافیوں کو اپنی باری یا ای میل چیک کرنے کے لئے کم از کم آدھ سے ایک گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ قومی یا بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ صحافیوں کو کوئی اہم خبر بریک کرنے کے لئے اپنے متعلقہ اداروں کو فون کرنا پڑتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔