کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 120 واں دن، تجارتی سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں
سری نگر کے دوسرے علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کہیں دکانیں دوپہر ایک بجے تک کھلی رہیں تو کہیں اتوار ہونے کی وجہ سے دن بھر بند رہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں آج پیر کے روز غیر یقینی صورتحال کے 120 ویں دن معمولات زندگی پٹری پر نظر آئے، جہاں سری نگر کے سول لائنز میں اتوار کو لگنے والے سنڈے مارکیٹ میں خرید و فروخت کی سرگرمیاں اپنے عروج پر نظر آئیں وہیں دیگر اضلاع میں بھی بازار نصف دن سے بھی زیادہ وقت تک کھلے رہے اور نجی و پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت دن بھر جاری رہی۔
یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار جس نے گزشتہ اتوار کی صبح ٹی آر سی سے جہانگیر چوک تک لگنے والے سنڈے مارکیٹ کا دورہ کیا، کے مطابق اس ہفتہ وار مارکیٹ میں اتوار کو ہزاروں کی تعداد میں گاہکوں نے اپنی ضرورت کی چیزیں بالخصوص گرم ملبوسات خریدے۔ جن چھاپڑی فروشوں نے اس مارکیٹ میں اپنے ریڑے لگائے تھے، نے بھی اچھا بزنس کیا۔
سری نگر کے دوسرے علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کہیں دکانیں دوپہر ایک بجے تک کھلی رہیں تو کہیں اتوار ہونے کی وجہ سے دن بھر بند رہیں۔ تاہم پائین شہر کے کچھ حصوں کو چھوڑ کر سری نگر کے باقی حصوں میں نجی و پبلک ٹرانسپورٹ دن بھر چلتا رہا۔
اس دوران وادی میں انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل فون خدمات مسلسل 120 ویں دن بھی معطل ہیں۔ یہ خدمات جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 کی منسوخی اور ریاست کے بٹوارے سے ایک دن قبل یعنی 4 اگست کو معطل کی گئیں۔ اگرچہ وادی میں مواصلاتی خدمات مکمل طور پر معطل کی گئیں تھیں تاہم بعد ازاں مرحلہ وار طریقے سے لینڈ لائن اور موبائل فون خدمات بحال کی گئیں۔
مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کے باعث صحافیوں، طلبا اور تاجروں کے مسائل میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کے باعث انہیں اپنے پیشہ ورانہ کام کی انجام دہی کے لئے جو مشکلات درپیش ہیں، ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قائم میڈیا سینٹر میں روز جانا پڑ رہا ہے جو موجودہ حالات اور موسم کے چلتے انتہائی کٹھن کام ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق سری نگر کی طرح وادی کے دیگر 9 اضلاع میں بھی معمولات زندگی جوں کے توں رہے۔ اضلاع و قصبہ جات میں کہیں بازار دوپہر تک کھلے رہے تو کہیں دوپہر کے بعد کھل کر شام دیر گئے تک کھلے رہے۔ تاہم سڑکوں پر نجی و پبلک ٹرانسپورٹ دن بھر چلتا ہوا نظر آیا۔
وادی کے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں سے وابستہ بیشتر لیڈران جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں، پانچ اگست سے مسلسل نظر بند ہیں اگرچہ انتظامیہ نے ایک طرف سیاسی لیڈروں کی رہائی مرحلہ وار طریقے سے سلسلہ شروع کی ہے تاہم دوسری طرف حالیہ دنوں سردی کے پیش نظر 33 سیاسی لیڈروں کو شہرہ آفاق جھیل ڈل کے کنارے پر واقع سنتور ہوٹل سے مولانا آزاد روڑ پر واقع ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا۔
مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ اگرچہ وادی میں ہڑتال کی کال علیحدگی پسند لیڈران ہی دیا کرتے تھے لیکن وہ پانچ اگست سے مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں اور ان کی طرف سے کوئی اخباری، زبانی یا ٹیلی فونک بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔