مودی حکومت میں 12 ہزار کروڑ کا 'آئرن ایکسپورٹ' گھوٹالہ، چنندہ امیر دوستوں کو پہنچایا فائدہ: کانگریس
سرکاری کمپنیوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کو لے کر کانگریس پارٹی نے مرکز کی مودی حکومت پر نشانہ سادھا ہے۔ پون کھیڑا نے کہا کہ مرکز سرکاری کمپنیوں کو چند صنعت کاروں کے ہاتھ فروخت کر رہی ہے۔
کانگریس نے مرکز کی مودی حکومت پر ایک نئے گھوٹالے کو لے کر حملہ کیا ہے۔ کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ مرکز میں بیٹھی بی جے پی نے گزشتہ 6 سالوں میں بار بار ایسی مثالیں پیش کی ہیں جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مودی حکومت صرف اپنے کچھ چنندہ امیر دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اقتدار کا استعمال کر رہی ہے۔ ہوائی اڈوں سے لے کر بندرگاہوں تک، ٹیلی کمیونکیشن سے لے کر نورتن کمپنیاں اور یہاں تک کہ ہندوستان کا وقار مانی جانے والی ہندوستانی ریل تک مودی حکومت اپنے دوستوں پر لٹانے کے لیے ہمیشہ تیار دکھائی دے رہی ہے۔
پون کھیڑا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ "یہ حکومت بھول جاتی ہے کہ ملک اور ملک کے اندر ان تمام اداروں کی تعمیر کچھ مٹھی بھر پونجی پتیوں نے نہیں کی بلکہ اس ملک کی تعمیر ایک ایک ہندوستانی کی محنت اور خون پسینے سے ہوئی ہے۔ جس ملک کو ہر ملکی باشندہ نے بنایا ہو اسے چند امیروں کے ہاتھوں میں فروخت ہوتا دیکھ افسوس ہوتا ہے۔ آج کانکنی شعبہ میں ہوئے ایک بہت بڑے گھوٹالے کی طرف آپ کی توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔"
پون کھیڑا نے آگے بتایا کہ 2014 سے پہلے کچے لوہے کی برآمدات (آئرن ایکسپورٹ) صرف ایم ایم ٹی سی کے ذریعہ کی جاتی تھی اور ایم ایم ٹی سی بھی صرف وہ کچے لوہے برآمد کر سکتی تھی جس میں 64 فیصد لوہے کا ارتکاز ہو۔ اس سے اوپر کی سطح کا لوہا فروخت کرنے سے پہلے ایم ایم ٹی سی کو بھی حکومت سے اجازت لینی پڑتی تھی۔ علاوہ ازیں ایم ایم ٹی سی میں 89 فیصد شراکت داری حکومت کی ہے۔ کچے لوہے کی برآمدات پر 30 فیصد برآمدگی ٹیکس بھی لگتا تھا۔ یہ اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ عمدہ سطح کا لوہا ملک میں ہی رہے اور ملک کے اسٹیل پلانٹ کے استعمال میں آئے۔"
پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ 2014 میں جب مودی حکومت آئی تو یہ تمام قوانین آناً فاناً میں بدل دیئے گئے۔ اسٹیل وزارت نے سب سے پہلے تو 64 فیصد ارتکاز والے لوہے کی شرط کو بدلا اور 'کڈریمکھ آئرن اور کمپنی لمیٹڈ' (کے آئی او سی ایل) کو چین، تائیوان، جنوبی کوریا اور جاپان میں کچا لوہا برآمد کرنے کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ وزارت نے پالیسی میں ایک اور تبدیلی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کچے لوہے پر تو 30 فیصد برآمدگی ٹیکس جاری رہیں گے لیکن یہ کچے لوہے چھرّوں کی شکل میں برآمد کی جائے تو اس پر کوئی برآمدگی ٹیکس نافذ نہیں ہوگا۔ برآمدگی کرنے کی اجازت کے آئی او سی ایل کو حاصل تھی لیکن 2014 سے اب تک کئی نجی کمپنیوں نے چھرّوں کے ذریعہ سے ہندوستان کا کچا لوہا برآمد کرنا شروع کر دیا۔ اس پر ٹیکس کی شکل میں ہزاروں کروڑ روپے کی چوری ہوئی۔
پون کھیڑا آگے بتاتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق ان نجی کمپنیوں نے 2014 سے اب تک تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کا کچا لوہا برآمد کیا ہے۔ ان کمپنیوں کے پاس کچا لوہا برآمد کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ پرائیویٹ سیکٹر کی وہ کمپنیاں جن کے پاس اپنے استعمال کے لیے کچے لوہے کی کانیں تھیں، انھوں نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسٹیل وزارت اور مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے عمدہ کچے لوہے کی برآمد چھرّوں کے ذریعہ سے کی۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہندوستان کے بیش قیمتی قدرتی وسائل کو لوٹا گیا بلکہ 12 ہزار کروڑ روپے کی برآمدگی ٹیکس بھی چوری کی گئی۔ فورن ٹریڈ (ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیشن) ایکٹ 1992 کے تحت ان کمپنیوں پر کچے لوہے چھرّوں کی غیر قانونی برآمدگی پر 2 لاکھ کروڑ کا جرمانہ بنتا ہے۔ 10 ستمبر 2020 کو وزارت قانون نے خط کے ذریعہ سے یہ واضح بھی کیا کہ چھرّوں کی برآمد کی اجازت کے آئی او سی ایل کو اور اس کے علاوہ جتنی بھی کمپنیاں استعمال کر رہی ہیں وہ غیر قانونی ہے۔ یہ نہ صرف فورن ٹریڈ ایکٹ 1992 کے تحت غیر قانونی ہے بلکہ کسٹم ایکٹ 1962 کے تحت بھی یہ سنگین جرم مانا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کورونا کے ایک دن میں 78524 نئے معاملے، 83011 افراد شفایاب
اس دوران کانگریس نے مرکزی حکومت سے کئی سوال بھی پوچھے جن میں سے کچھ اہم سوالات یہ ہیں:
اعلیٰ معیار کے کچے لوہے جس میں 64 فیصد سے زیادہ لوہے کا ارتکاز ہو، کی برآمدگی کی اجازت کیوں دے دی گئی؟
وہ کون سی کمپنیاں ہیں جنھوں نے 2014 سے لے کر اب تک بغیر اجازت کے کچے لوہے کی برآمدگی کی؟ ان کے نام برسرعام کیے جائیں۔
2014 سے لے کر اب تک کیا حکومت نے یا کسی بھی جانچ ایجنسی نے کچے لوہے کی غیر قانونی برآمدگی کو لے کر کسی بھی پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنی کی جانچ کی؟
مرکزی حکومت نے اپنے کسی وزیر یا اس سے متعلقہ افسر جنھوں نے یہ غیر قانونی برآمدگی ہونے دی، پر کارروائی کی؟
اس 2 لاکھ کروڑ کے گھوٹالے میں ملک کے بیش قیمتی قدرتی وسائل کی کھلی لوٹ ہوئی ہے، اس کی اخلاقی ذمہ داری نریندر مودی جی کس پر ڈالیں گے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔