مودی کی دوسری مدت کے سو دن تنازعات کی نذر

بگڑتے ہوئے ماحول کو وزیراعظم مودی اگر دیکھ کر بھی ان دیکھا کر رہے ہیں تو ان کے 100 دن کے رپورٹ کارڈ پر یہ ایک نہ دھلنے والا بد نما داغ ہوگا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

مرکز میں نریندرمودی کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد سے ایک سے بڑھ کرایک بڑے بڑے اقدامات کرنے کے اعلان کئے جارہے ہیں لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق سماجی ترقیات کے حوالے سے نہ صرف انہیں مسترد کرتے ہیں بلکہ جو صورتحال ہے اور جس کا اعتراف خود حکومت نے کیا ہے وہ اس کے برخلاف سماج کو توڑنے، بھائی چارہ کو ختم کرنے اور تشدد کو بڑھاوا دینے کی ہیں۔ سماجی ترقی کا تعلق سماج کے ماحول سے مربوط ہے اگر سماج میں امن امان ہوگا تو سماج ترقی کی رفتار پکڑے گا بصورت دیگر بدامنی، انتشار، تشدد اور عدم اطمینان کی کیفیت میں سماجی ترقی کا دائرہ سکڑ کر صفر پر پہنچ جائے گا۔ گذشتہ 100دنوں کی حکمرانی میں سماجی صورتحال اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے باوجود مودی حکومت کی جانب سے اس صورتحال کو بدلنے اور سماج کو مثبت خطوط پر لے جانے کے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ بلکہ جو لیڈران زہر اگلنے اور ماحول کو خراب کرنے کا کام کر رہے ہیں حکومت اپنی خاموشی سے ان کے حوصلوں کو بڑھا رہی ہے۔

لوک سبھا انتخابات میں ملی زبردست اکثریت کے بعد نریندر مودی نے اپنی دوسری مدت کے 100 دن پورے کر لئے ہیں۔ ایسے میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ آخر وزیر اعظم مودی کے 100 دن کس طرح تھے اور ان دنوں میں مودی حکومت کن کن تنازعات سے گھری رہی۔ سوشل میڈیا کا مایا جال اب چاروں طرف پھیل گیا ہے اس لئے اپنی ناکامی کو چھپانے کی ہرکوشش ناکام ہوجاتی ہے۔ اس دور میں روزانہ تقریباً ایک ویڈیو یا تصویر ایسی دیکھنے کو مل جاتی ہے جسے دیکھ کرمہذب سماج کانپ اٹھتا ہے۔ کبھی بچہ چوری کے شک میں خاتون کو پیٹ دیا جاتا ہے تو کبھی موبائل چوری کے شک میں کسی نوجوان کو۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ جھارکھنڈ میں دیکھنے کو ملا تھا جب موٹر سائیکل چوری کے شک میں تبریزانصاری کو ہجوم نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا۔ اتنا ہی نہیں ہجوم نے پہلے انصاری سے ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کو کہا تھا۔ اگرچہ ماب لنچنگ کے مسئلے پر پہلی بار وزیر اعظم مودی نے خاموشی توڑی تھی حالانکہ اس کا کوئی اثرہوتا نظرنہیں آیا۔ انہوں نے اتنا ضرورکہا کہ اس سے انہیں دکھ پہنچا ہے اور قصورواروں کو سخت سزا ملنی چاہئے لیکن کیا وزیر اعظم کے محض یہ کہہ دینے سے لنچنگ کے واقعات رکے؟ جواب آپ کے سامنے ہے۔


مودی حکومت کے 50 دن پورے ہونے پر فلمی دنیا سے منسلک 49 شخصیات نے عدم برداشت کے معاملے پر وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ عام لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ’جے شری رام‘ کے نام کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں ان شخصیات نے وزیراعظم مودی سے ایک ایسا ماحول بنانے کا مطالبہ کیا۔

جہاں عدم برداشت کو کچلا نہ جائے اور ملک ایک مضبوط قوم بنے۔ان 49 شخصیات میں ’گینگس آف واسے پور‘ کے ڈائریکٹر انوراگ کشیپ بھی شامل تھے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنا ٹویٹر اکاونٹ ڈیلیٹ کر دیا اور آپ وجہ جاننا چاہیں گے، تو سنئے کیونکہ انوراگ کشیپ کے والدین اور بیٹی کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کشیپ نے جب اپنا ٹوئٹر ڈیلیٹ کیا تھا تو انہوں نے اس سے پہلے لکھا کہ اگر وہ اس فورم پر اپنے ’من کی بات‘ کرنے کے لئے آزاد نہیں ہیں تو وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب آپ کے والدین کو فون آنے شروع ہو جائیں اور آپ کی بیٹی کو آن لائن دھمکیاں ملنے لگیں تو پھر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہے گا۔ کوئی وجہ یا کوئی بھی دلیل نہیں بچے گی۔ آواز دبانے والے حکمرانی کریں گے اور آواز دبانا جینے کا نیا طریقہ ہو گا، سب کو یہ نیا بھارت مبارک ہو اور امید ہے کہ آپ سب اس میں آگے بڑھیں گے۔


اخبارات پڑھنے سے لگتا ہے کہ ملک میں مذہبی منافرت انتہا کو پہنچ چکی ہے، اخباروں میں تجزیہ نگار پوچھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم خود کیوں خاموش ہیں؟ کیا انہیں نفرت پھیلانے والوں کو واضح پیغام نہیں دینا چاہئے کہ وہ خود کو لگام دیں؟ وزیراعظم کوشاید اخبارات بھی پڑھنے کی فرصت نہیں مل رہی ہے اورجب تک وہ اخبار پڑھیں گے تو ان کی نظر پھر ان افواہوں پر جائے گی کہ وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے۔ ہفتوں سے یہ افواہیں جاری ہیں کہ انھوں نے وزیردفاع کے بیٹے کو بلاکر ڈانٹا کیونکہ وہ مبینہ طور پر کچھ افسروں کے تبادلے کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات اتنی بڑھی کہ خود راج ناتھ سنگھ، وزیر اعظم کے دفتر اور پارٹی کے صدر امت شاہ نے الگ الگ بیان جاری کرکے اس کی تردید کی۔ ایسی ہی کئی دوسری افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں، حیرت انگیز لیکن ناقابل یقین۔ چونکہ یہ افواہیں ہیں اس لئے جھوٹ ہی ہوں گی لیکن انہیں پھیلانے والوں کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ وزیر اعظم کی نگاہ سب پر ہے، وہ سب دیکھ رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ سب پر نگاہ رکھنا اچھی بات ہے یا خراب، لیکن بگڑتے ہوئے ماحول کو وہ اگر دیکھ کربھی ان دیکھا کر رہے ہیں تو ان کے 100 دن کے رپورٹ کارڈ پر یہ ایک نہ دھلنے والا بد نما داغ ہوگا۔

مودی حکومت کی دوسری اننگز کے 100 دن پورے ہو چکے ہیں لیکن ماب لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔آپ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، اوسطاً 1-2 دن میں ایک واقعہ توماب لنچنگ سے متعلق ضرور ملے گا۔ حالانکہ موجودہ وقت میںمودی حکومت نےجموںو کشمیر سے دفعہ 370 کے کچھ التزام کو منسوخ کرکے ملک کے تمام جلتے ہوئے مسائل پرکچھ وقت کے لئے ضرورپانی پھیردیاہے۔ حکومت پر اپوزیشن لیڈر اور سماجی کارکن الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اختلاف کی آواز کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ ساتھ ہی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ’عالمی یوم انسانیت‘پرٹویٹ کرکے لکھا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ’مکمل طورپر‘ خلاف ورزی ہوئی ہے، اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق اور امن کے لئے دعا کریں۔


وہیں جے این یوکی طلباء لیڈر شہلا رشید نے کہا تھا کہ ہندوستانی فوج جموں و کشمیر میں اندھا دھند لوگوں کو پکڑ رہی ہے، مکانوں پر چھاپے مار رہی ہے اور لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ یہ معاملہ جب بڑھ گیا تو ہندوستانی فوج کو بھی اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرناپڑاتھا جس کے بعد شہلا رشید نے کہا تھاکہ میں ثبوت تب دوں گی جب ہندوستانی فوج انکوائری کمیشن کی تشکیل کرے گی، میں نے آپ کو اپنا بیان دے دیا ہے، کیا فوج نے کوئی تحقیقات شروع کی ہے؟وادی کی موجودہ صورتحال کو لے کر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق ہائی کمیشن نے تشویش کا اظہار کیا تھا ساتھ ہی انہوں نے وادی میں ٹیلیفون خدمات کو بند کرنے، رہنماو ¿ں کو حراست میں لینے اور سیاسی طور پر جمع ہونے پر پابندی لگانے پر بھی سوال کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس سے انسانی حقوق کی صورت حال اور بگڑے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Sep 2019, 8:10 PM