گجرات کی بجلی کمپنی کو بچانے کے لیے مودی حکومت نے اواین جی سی کو قرض میں ڈبو دیا
او این جی سی ایمپلائز مزدور سبھا کے جنرل سکریٹری اے آر تاڈوی کا کہنا ہے کہ ’’میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آخر 20 ہزار کروڑ کے خسارہ والی جی ایس پی سی کو مودی جی اور پردھان جی کیوں بچا رہے ہیں۔‘‘
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعہ ملک کے چھوٹے اور متوسط صنعتوں کو برباد کرنے کے بعد مرکزی حکومت اب ملک کی نورتن کمپنیوں کو تباہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ مرکزی حکومت نے گجرات کی سرکاری بجلی کمپنی کو بچانے کے لیے نورتن کمپنیوں میں سے ایک او این جی سی کو زبردستی ایسا گیس بلاک خریدنے پر مجبور کیا جس میں 20 ہزار کروڑ خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔
ملک کی نورتن کمپنی زبردست اقتصادی بحران سے نبرد آزما ہے اور حالت یہ ہے کہ ملازمین کی تنخواہ اور الاؤنس تک دینے کے لیے اسے قرض لینا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران او این جی سی کے کاموں میں مرکزی حکومت کی مداخلت کے سبب یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ یہ الزام او این جی سی ملازم مزدور سبھا نے وزیر اعظم کو لکھے خط میں لگایا ہے۔
سرکاری کمپنیوں میں مرکز کی بڑھتی مداخلت کے سبب ملک کی نورتن کمپنیوں میں سے ایک آئل اینڈ نیچورل گیس کارپوریشن یعنی او این جی سی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ کبھی نقدی کے معاملے میں خودمختار رہنے والی او این جی سی کو ملازمین کی تنخواہ اور الاؤنس کی ادائیگی کے لیے بینکوں سے اوور ڈرافٹ لینا پڑ رہا ہے۔ اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے گجرات ریاستی بجلی کارپوریشن یعنی جی ایس پی سی کے حصے کا کرشنا گوداوری بیسن زبردستی او این جی سی کو دلوایا ہے اور اس کے بدلے او این جی سی نے جی ایس پی سی کو 8 ہزار کروڑ کی ادائیگی کی ہے۔
اس سلسلےمیں او این جی سی ملازمین مزدور سبھا نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر حالات سے مطلع کیا ہے۔ سبھا کے جنرل سکریٹری اے آر تاڈوی نے اس خط میں بتایا کہ ’’2016 میں مرکزی حکومت نے او این جی سی پر دباؤ ڈال کر اسے گجرات ریاستی بجلی کارپوریشن، جی ایس پی سی کا کے جی بیسن بلاک تحویل میں لینے کو کہا۔ اس کے لیے او این جی سی کو 8000 کروڑ روپے کی ادائیگی جی ایس پی سی کو کرنی پڑی۔‘‘ تاڈوی نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ’’جی ایس پی سی اس بلاک میں 2005 سے ہی ریسرچ کا کام کر رہی تھی۔ تقریباً 10 سال تک دریافت اور غیر ملکی ماہرین و مہنگی مشینوں کی خرید پر تقریباً 20 ہزار کروڑ خرچ کرنے کے باوجود اسے اس بیسن میں گیس نہیں ملی تو پھر حکومت نے کیوں زبردستی 8000 کروڑ میں او این جی سی کو یہ بلاک خریدنے کے لیے مجبور کیا؟‘‘
خط میں تاڈوی لکھتے ہیں کہ ’’مرکزی حکومت کے مختلف فیصلوں نے او این جی سی کی اقتصادی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔‘‘ انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ مرکزی حکومت نے او این جی سی کے کام میں مداخلت کر صرف جی ایس پی سی کو ہی نہیں بچایا ہے بلکہ ملک کا مالی خسارہ کم کرنے کے لیے ہندوستان پٹرولیم میں حکومت کی مکمل یعنی 51.11 فیصد شراکت داری 36975 کروڑ میں خریدنے پر بھی مجبور کیا۔ یہ قیمت ایچ پی سی ایل کی بازار قیمت (اس دن کے شیئر کی قیمت کی بنیاد پر) سے 14 فیصد زیادہ ہے۔ ایچ پی سی ایل میں شراکت داری خریدنے سے او این جی سی کا قرض دو گنا ہو کر 111533 کروڑ ہو گیا۔
تاڈوی خط میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ او این جی سی میں سرکاری مداخلت یہیں تک محدود نہیں ہے۔ کمپنی کی مرضی کے بغیر ہی بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کو ان کی اہلیت کے بغیر ہی کمپنی کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ تاڈوی نے بتایا کہ مرکزی حکومت او این جی سی کے سی ایس آر (سماجی ذمہ داری فنڈ) کا بھی غلط استعمال کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے جن منصوبوں میں حکومت کو پیسہ لگانا چاہیے اس میں دباؤ بنا کر او این جی سی کا پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ تاڈوی نے الزام عائد کیا کہ مرکزی حکومت کے وزیر لگاتار دباؤ بنا کر کمپنی سے پیسہ لے کر خرچ کرا رہے ہیں۔ اس کی مثال پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایل پی جی کنکشن تقسیم ہو، بیت الخلاء بنانا ہو، گاؤوں کو گود لینا ہو یا لڑکیوں کے لیے سینیٹری نیپکن تقسیم کرنا ہو، ہر کام کے لیے سرکاری منصوبوں کے فنڈ کی جگہ او این جی سی کے ’سی ایس آر‘ کا پیسہ لگانے کا لگاتار دباؤ بنایا جا رہا ہے۔
’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران تاڈوی نے کہا کہ ’’حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ ملازمین کی سیکورٹی کے لیے ضروری مشینوں کی خرید کی فائلیں گزشتہ 4-3 سال سے وزارت میں دھول کھا رہی ہیں اور ان پر کوئی فیصلہ نہیں لیا جا رہا ہے۔‘‘ تاڈوی کا کہنا ہے کہ ’’ملازمین کے لیے ضروری سیکورٹی مشینیں او این جی سی پہلے ایک غیر ملکی کمپنی سے خریدتا رہا ہے لیکن اب تیل کے وزیر دھرمیندر پردھان اسے کسی ایک خاص ہندوستانی کمپنی سے خریدنے کا دباؤ بنا رہے ہیں۔ جب کہ اس ہندوستانی کمپنی کی مشینیں ہماری ضرورت پوری نہیں کرتے۔‘‘
تاڈوی اس سلسلے میں تفصیل پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’او این جی سی کو قائم ہوئے 68 سال ہو گئے ہیں لیکن اب سرکار کہتی ہے کہ کمپنی کو اپنے سبھی کمپلیکس کے چاروں طرف دس فٹ اونچی دیوار بنا کر سی سی ٹی وی کیمرے اور سنسر لگانے چاہئیں۔ اس پر تقریباً دو ہزار کروڑ خرچ ہو جائیں گے۔ پتہ نہیں حکومت اس کمپنی کو کس راستے پر لے جانا چاہتی ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم خام تیل تیار کرنے میں حکومت کی مدد مانگتے ہیں تو وہ اسے سننے کو بھی تیار نہیں۔
او این جی سی کو تباہی کی طرف گامزن دیکھ کر تاڈوی کہتے ہیں کہ وہ او این جی سی کو بچانے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر 20 ہزار کروڑ کے خسارہ والی جی ایس پی سی کو مودی جی اور پردھان جی کیوں بچا رہے ہیں۔ تاڈوی نے بتایا کہ انھوں نے وزیر اعظم کو جو خط بھیجا تھا وہ پی ایم او میں وصول ہو گیا ہے اور پی ایم نے جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بارے میں ضروری کارروائی کی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Oct 2018, 6:09 PM