مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے
اردو نثر کے مشہور طنز نگار مشتاق احمد یوسفی طویل علالت کے بعد بدھ کے روز کراچی میں چورانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
مشتاق احمد یوسفی کی کاٹ دار تحریر، سماج اور انسانی نفسیات پر گہری نگاہ، اردو تہذیب سے جڑی کئی نئی روایات کو جنم دینا، اردو ادب میں ان کے بلند مرتبے کی آئینہ دار اور موجب تھیں۔ ان کی شہرہء آفاق کتب چراغ تلے، خاکم بہ دہن، زرگزشت، آبِ گم اور شام شعرِ یاراں تھیں۔
انہیں اردو ادب میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر حکومت پاکستان کی جانب سے سن 1999 میں ستارہ امتیاز اور 2002 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
مشتاق احمد یوسفی چار ستمبر 1923 کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پیشہ ورانہ بینکر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اردو ادب میں انہیں ان کے غیرعمومی اسلوب اور انتہائی نئے طرز کے پیرائے میں طنز و مزاح کی تخلیق کی بنا پر صفِ اول کے قلم کاروں میں گردانا جاتا تھا۔
مشتاق احمد یوسفی کے والد جے پور میں گریجویشن تک تعلیم حاصل کرنے والے پہلے مسلمان تھے۔ مشتاق یوسفی کے گھرانے نے سن 1956 میں پاکستان ہجرت کی اور ان کا زیادہ تر وقت کراچی میں گزرا۔
اردو شاعری کی روایت ہے کہ کسی مشاعرے کی صدارت ہمیشہ کوئی شاعر ہی کرتا ہے، تاہم مشتاق احمد یوسفی کی اردو زبان پر گرفت اور ادبی قد کی بنا پر انہیں مشاعروں کی صدارت تک دے دی جاتی تھی۔ سن دو ہزار سات میں بھی مشتاق احمد یوسفی کو ایسی ہی ایک شعری نشست کی صدارت دی گئی۔ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں شاعری کی اس نجی نشست میں شہر بھر کے شعراء شریک تھے۔ کچھ نوآموز شاعر بھی تھے، سو کہا گیا کہ سبھی افراد اپنا اپنا تعارف کرا دیں۔
ایسے میں معروف شاعر خالد معین نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا، ’میرا نام خالد معین ہے اور میرا تعلق جنگ گروپ سے ہے۔
ان کی تقلید میں ان کے برابر بیٹھے راشد نور نے کہا، ’میرا نام راشد نور ہے اور میرا تعلق نوائے وقت گروپ سے ہے۔‘ ان سے آگے مشتاق احمد یوسفی بیٹھے تھے، کہنے لگے، ’میرا نام مشتاق احمد یوسفی ہے اور میرا تعلق کسی گروپ سے نہیں ہے۔
ان کے اس جملے پر چاروں جانب سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور وہاں موجود تمام شاعر ایک لمحے میں ہر گروپ سے جیسے آزاد سے ہو گئے۔
یوسفی صاحب کو ادیب اور شعراء عموماﹰ اپنے گھیرے میں لیے رکھتے اور سبھی کی خواہش ہوتی کہ یوسفی یا تو کسی تقریب میں شریک ہو جائیں، ان کی کسی کتاب کا دیباچہ لکھ کر اس کتاب کو امر کر دیں یا کسی کتاب کے فلیپ کے لیے ہی چند کلمات تحریر کر دیں۔
مشتاق احمد یوسفی اردو زبان و ادب کا ایک ایسا ستارہ تھے، جو ایک طویل عرصے تک ’عہد یوسفی‘ بن کر تابندہ رہے گا۔
- مشتاق احمد یوسفی کے چند ون لائنرز
- مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے
- لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچائی ہوتی ہے
- جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا
- دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار
- مسلمان کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھا نہ سکیں
- محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوبصورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے
- بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے
- آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے
- مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے
- حجام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار نہ کرلے اور یہ سکھ کبھی ہونے نہیں دیں گے
- سردی زیادہ اور لحاف پتلا ہو تو غریب غربا منٹو کے افسانے پڑھ کر سو رہتے ہیں
- امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں
- مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے
- پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں
- فقیر کے لیے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہے
- بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے، یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی سے شادی کرتا ہے
- ہم نے تو سوچا تھا کراچی چھوٹا سا جہنم ہے، جہنم تو بڑا سا کراچی نکلا
- آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا
- گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ اپنی مادری زبان ہی میں مزہ دیتا ہے
- ہارا ہوا مرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہوجاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست لگنے لگتی ہے
- جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کے بجائے پیسے برآمد ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے بے فکری کی نیند کبھی نہیں نصیب ہوگی
- انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا
- یہ بات ہم نے شیشم کی لکڑی، کانسی کی لٹیا، بالی عمریا اور چگی داڑھی میں ہی دیکھی کہ جتنا ہاتھ پھیرو، اتنا ہی چمکتی ہے
- مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی
- آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں
- قبر کھودنے والا ہر میت پر آنسو بہانے بیٹھ جائے تو روتے روتے اندھا ہوجائے
- خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی
- تماشے میں جان تماشائی کی تالی سے پڑتی ہے، مداری کی ڈگڈگی سے نہیں
- لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے
- نام میں کیا رکھا ہے؟ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی
- فرضی بیماریوں کے لیے یونانی دوائیں تیر بہدف ہوتی ہیں
- جس بات کو کہنے والے اور سننے والے دونوں ہی جھوٹ سمجھیں اس کا گناہ نہیں ہوتا
- مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہیں
- یورپین فرنیچر صرف بیٹھنے کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹا نہ جاسکے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Jun 2018, 12:39 PM