اللہ بچائے ان قدامت پرستوں سے، منٹو کے ادب کو آج بھی فحاشی تصور کرتے ہیں
پاکستانی میڈیا کے مطابق کچھ لوگ منٹو کی تصنیفات کو فحاشی پر مبنی تصور کرتے ہیں اور انہی کی وجہ سے منٹو سے متعلق تقریب کو ملتوی کیا گیا۔ کچھ ہندوستانی ادیب نے اس سلسلے میں اظہارِ افسوس ظاہر کیا ہے۔
پاکستان میں 14 سے 17 جنوری تک سعادت حسن منٹو کی کاوشوں کو یاد کرتے ہوئے ایک تقریب کا انعقاد ہونا تھا جو ملتوی کر دی گئی ہے۔ پاکستانی میڈیا ذرائع سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق یہ تقریب ملتوی ہونے کی وجہ ایسے لوگوں کا دباؤ ہے جو منٹو کی تخلیقات کو فحش تصور کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ تھیٹر گروپ کے ذریعہ منٹو یا ان کی تخلیقات کو پیش کیے جانے سے فحاشی کو فروغ ملے گا۔ پاکستان کے معروف انگریزی روزنامہ ’دی ایکسپریس ٹریبیون‘ نے خصوصی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’مذہبی شدت پسند طاقتیں منٹو فیسٹیول کو رَد کرنے کا دباؤ بنا رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ منٹو کی تصنیفات فحاشی کی تشہیر کرتی ہیں۔‘‘
دراصل لاہور میں واقع ’الحمرا آرٹس کونسل‘ نے عالمی شہرت یافتہ ادیب منٹو (پیدائش- 11 مئی 1912، وفات-18 جنوری 1955) کی یاد میں تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ لیا تھا جس کے بارے میں خبریں آ رہی ہیں کہ ان کی تصنیفات میں ’عریانیت‘ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حالانکہ الحمرا آرٹس کونسل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اطہر علی خان کا کہنا ہے کہ پروگرام کینسل ہونے کی خبریں درست نہیں ہیں اور سچ صرف یہ ہے کہ تاریخ میں تبدیلی کی گئی ہے۔ لیکن لوگ سوال یہ اٹھا رہے ہیں کہ آخر تاریخ میں یہ تبدیلی کس دباؤ کی وجہ سے ہوئی۔ ’دی ایکسپریس ٹریبیون‘ نے تو ایک سینئر افسر کے توسط سے یہ بھی بتایا ہے کہ ’’وزارت پنجاب کے افسران نے مصنف کے کام کی نوعیت کے پیش نظر تقریب کی مخالفت کی ہے۔‘‘
ایسے ماحول میں جب کہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی اور حقیقت پسند ادب کی بات کی جا رہی ہے، اور منٹو کی تخلیقات کو آسمانِ ادب میں سرخروئی حاصل ہو چکی ہے، اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان کے معروف شاعر گوہر رضا نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اس سے زیادہ بدقسمتی اور بدنصیبی کی بات کچھ بھی نہیں ہو سکتی کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کلچر اور ہمارے ادب کے فروغ پر روک لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ پاکستان میں ہی نہیں ہندوستان میں بھی ہیں جو اس طرح کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج کی دنیا الگ دنیا ہے اور اس دنیا میں اگر بولنے کی آزادی، لکھنے کی آزادی یا پھر پرانی لکھی گئی تصنیفات کو پڑھنے کی آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو یہ وہی ذہنیت ہے جو منٹو کی زندگی میں دیکھنے کو ملی تھی۔‘‘
گوہر رضا نے گفتگو کے دوران قدامت پرست لوگوں کے ذریعہ باصلاحیت اور آگے بڑھ کر سوچنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے پر افسوس بھی ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کئی لوگ ہیں جو اپنے بہترین دماغوں کے ہی خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں چاہے وہ سائنس میں ہو، ادب میں ہو یا پھر کسی دیگر شعبہ میں۔ یہ واقعی بہت پریشان کن ہے کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو منٹو کو فحش کہیں۔ اگر منٹو کی زبان استعمال کی جائے تو جو کچھ ہو رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ آج 70 سال بعد بھی پاکستان میں بلکہ یہ کہا جائے کہ برصغیر میں ایسے لوگ ہیں جو اس سماج کو ناقابل برداشت بنانے میں لگے ہوئے ہیں، اور ضروری ہے کہ ہم سب منٹو کو بچانے کے لیے کھڑے ہوں۔‘‘
منٹو کی تصانیف کو عریانیت پر مبنی بتانے والے لوگوں کے دباؤ میں تقریب ملتوی کیے جانے کی خبروں پر ونوبا بھاوے یونیورسٹی، ہزاری باغ (جھارکھنڈ) میں شعبہ اردو کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ہمایوں اشرف نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’منٹو کے خلاف سب سے زیادہ مقدمے پاکستان میں ہی ہوئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں شدت پسندی کا رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہندوستان کا معاملہ پاکستان سے بہت بہتر ہے اور ادبی تقریبات کے انعقاد میں اس طرح کے مسائل پیش نہیں آتے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ادب کو ادب کے نظر سے ہی دیکھنا چاہیے اور اگر منٹو کی تقریبات کو کسی دباؤ کے سبب ملتوی کیا گیا ہے تو اس کی بھرپور مذمت ہونی چاہیے۔‘‘
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر اور جے این یو میں اردو کے ایسو سی ایٹ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین سے بھی ’قومی آواز‘ نے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’منٹو کی تخلیقات کو ادب کا بہترین سرمایہ قرار دیا جا چکا ہے اور اسے دقیانوسی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جہاں تک پاکستان میں منٹو سے متعلق تقریب کو دباؤ بنا کر ملتوی کیے جانے کی بات ہے، تو اس سلسلے میں مجھے کوئی خبر نہیں ہے اس لیے کوئی رد عمل دینا مناسب نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ تخلیقات کو ادبی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی خواجہ اکرام نے یہ بھی کہا کہ ’’منٹو صدی تقریبات پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ زور و شور سے منایا گیا تھا اس لیے ایسا نہیں لگتا کہ منٹو کی چیزوں کو فحش بتا کر پروگرام کو متاثر کیا جائے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔