غالب کے عہد کی عکاس ہے غالب انسٹی ٹیوٹ کا ’غالب میوزیم‘... خصوصی پیشکش

اسداللہ خاں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 کو ہوئی تھی اور وہ 15 فروری 1869 کو وفات پا گئے تھے۔ اس اعتبار سے آج ان کی 150ویں برسی ہے۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

ہر دل عزیز شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کی عظمت کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان کی شاعری میں جو دلکشی ہے اس کا سبب صرف حسن بیان نہیں ہے، بلکہ ان کا فکر اور تدبر بھی ہے۔ غالب کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور پھر اسے بڑی سادگی کے ساتھ عام لوگوں کے لئے شعری پیرایہ میں ڈھال دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے وہ مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کی تباہی کا دور تھا۔ انھوں نے تجارت کی غرض سے باہر سے آئی انگریزی قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا، اور یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیداکی ۔آج غالب کی 150 ویں برسی ہے اور پورے ملک میں اس موقع پر کئی طرح کی تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس موقع پر اگر آپ مرزا غالب کو قریب سے جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ’غالب میوزیم‘ سے عمدہ کوئی دوسری جگہ نہیں۔ اس میوزیم میں غالب کے دور کی کئی چیزیں بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہیں ۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم

غالب انسٹی ٹیوٹ کابیگم عابدہ احمد غالب میوزیم اپنی خوبصورتی سجاوٹ ، نوادرات ،قیمتی اشیاء اور نایاب مخطوطات کی وجہ سے دہلی کی ادبی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ میں بیگم عابدہ احمد غالب میوزیم کا قیام 1977 میں سابق صدر جمہوریہ ہند فخر الدین احمد کی اہلیہ عابدہ بیگم نے کیا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد اس میوزیم کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔غالب انسٹی ٹیوٹ کا بیگم عابدہ احمد غالب میوزیم مرزا غالب کے عہد کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔اس میوزم میں عہد غالب کے دور کی اشیاء یعنی برتن ، روزمرہ کی چیزیں اور غالب و معاصرین غالب کے مجسمے 18 ویں اور 19 ویں صدی کے دور کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ دہلی حکومت کی ٹورسٹ گائیڈ میں بیگم عابدہ احمد غالب میوزیم کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔میوزم میں غالب کے معاصرین کی حالات زندگی، ان کی تصویروں کے ساتھ موجود ہے۔غالب کے اس میوزیم میں بہادر شاہ ظفر کی سرپرستی میں لال قلعہ کے اندر جو مشاعرے ہوتے تھے اس کی جھلک کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان نوادرات میں تمام بڑے شعراء مثلاً شیخ ابراھیم ذوق، مفتی صدرالدین آرزو،امام بخش صہبائی، حکیم مومن خاں مومن کو دکھایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس میوزیم میں غالب کی مہروں کو بھی نمائش کے طور پر رکھا گیا ہے۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم

مہروں کا رواج 19 ویں صدی اور اس سے قبل بہت عام تھا ۔ اس کے علاوہ غالب میوزم میں عہد غالب کی نادر اشیاء (چمڑے کا قلم،لکڑی کا قلم ، سنگھار دان ، ہاتھی کے دانت کی ٹکلیاں اور پانسہ،غالب کا فرشی حقہ ،پاندان ،غالب کا چوغہ ) نادر مخطوطات اور دیگر تاریخی اشیاء کے علاوہ ان تصویروں کو بھی آویزاں کیا گیا ہے جو 1857 کی جنگ سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ تصویریں ان فنکاروں کی فنکاری کا خوبصورت نمونہ ہے جنھوں نے 1857کی جنگ اور دہلی، کلکتہ، بنارس،آگرہ ، رام پور اور لکھنو کی تاریخی عمارتوں کو بخوبی اپنے فن میں ڈھال دیا۔ ان میں کئی نوادرات غالب سے جڑے ہوئے تھا اور اس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ فنکاروں نے اپنے سانچہ میں ڈھالا ہے۔اس کے علاوہ میوزیم میں اندرا گاندھی کے کپڑوں کو بھی آویزاں کیا گیا ہے جو بیگم عابدہ احمد نے اندرا گاندھی کی بیماری کے بعد صحت یاب ہونے پر بطور تحفہ پیش کیا تھا ۔بعد میں اندراگاندھی نے یہ کپڑے بیگم عابدہ غالب میوزم کو بطور عطیہ پیش کر دیا تھا ۔ اس میوزیم میں سب سے دلچسپ چیز زہر مہرہ پلیٹ ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر کھانے میں زہر ہو اتو اس پلیٹ میں ڈالنے کے بعد کھانے کا رنگ بدل جاتا ہے اورپتہ چل جاتا ہے کہ یہ زہر آلود کھاناہے۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم

میوزیم کی سکریٹری یاسمین فاطمہ نے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ یہاں کثیر تعداد میں غالب سے محبت رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ غالب بہت بڑی شخصیت ہیں جو کسی سے چھپی نہیں ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری حاصل کی جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں کو غالب اور غالب کے عہد کو پڑھے بغیر جاننا ہے تو وہ یہاں آکر غالب کے دور اور ان سے منسلک چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بہترین ذریعہ ہے غالب اور ان کے عہد کو جاننے کے لیے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید رضا حیدر نے میوزیم کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی شخص اس میوزیم میں آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ عہد غالب کے دور میں آگیا ہے۔ دراصل غالب کا دور ہندوستان کی تاریخ و ثقافت کا اہم دور تھا اور ہم نے پوری کوشش ہے کہ اس دور کی بھرپور عکاسی میوزیم میں ہو۔ سید رضا حیدر کا کہنا ہے کہ مرکزی وزارت ثقافت کی جانب سے اس میوزیم کے فروغ کے لئے مالی تعاون ادارہ کو دیا جاتا ہے جس کے سبب اس کی دیکھ بھال میں آسانیاں فراہم ہو جاتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔