پرورش لوح و قلم
ابھی حال میں، گائے کے نام پر قتل عام کرنے والے RSS کے 'گئو رکشکوں' کے خلاف ایک مظاہرہ میں جب میں اپنی کچھ نظمیں پڑھ کر اسٹیج سے اترا تو میرے فوراً بعد ایک خاتون نے فیض احمد فیض کی نظمیں گا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس بات پر کسی کو تعجب نہیں تھا کہ اس مظاہرے میں کئی فنکاروں نے فیض احمد فیض کی نظموں کو پڑھا اور گایا۔ کسی نے یہ سوچا بھی نہیں کہ وہ ایک پاکستانی شاعر کا کلام پڑھ رہے ہیں اور ان پر 'دیش دروہ' کا الزام لگ سکتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ کسی 'خونخوار اندھ بھکت' نے یہ الزام لگایا بھی نہیں۔ اور بہت سے الزام تو لگے مگر ان میں دیش دروہ کا یہ الزام نہیں تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ RSS بھگتوں کی سمجھ میں فیض اور ساحر لدھیانوی کی شاعری آئی ہی نہیں ، جس کا اس مظاہرے میں افراط سے استعمال کیا گیا تھا۔ شاید، یہ ان کی سمجھ سے بالاتر تھی۔
فیض احمد فیض ایک عجیب شخصیت تھے۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اگر کوئی فیض احمد فیض کے نام سے واقف نہیں تو اسے غیر تعلیم یافتہ مانا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ اس برصغیر کے غیر تعلیم یافتہ عوام، فیض کے نام سے آشنا نہیں۔ حالانکہ ایسا کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فیض بیسویں صدی میں اس خطے کے سب سے ہردلعزیز اور سب سے مشہور شاعر ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔
فیض کی شاعری سے محظوظ ہو کر جب بھی میں اٹھتا ہوں تو دو سوال میرے سامنے ضرور آ کھڑے ہو تے ہیں۔ ایک تو یہ کہ فیض نے جو شاعری کی اس میں سے کم ہی آسان زبان میں ہے، پھر بھی وہ اتنے مشہور کیسے ہو گئے، اور دوسرا یہ کہ اردو ادب کے سارے شاعر کبھی نہ کبھی اعتراضات کے دائرے میں قید ہوئے اور ان کے دشمن پیدا ہو گئے، مگر فیض کا کوئی دشمن نہیں، سوائے حکام کے۔ وہ بھی نہیں جو ان کے سیاسی خیالات سے بالکل متفق نہیں تھے، یا یوں کہیں کہ وہ بھی نہیں جو سیاسی طور پر دوسرے خیموں میں تھے۔
میں ان دونوں سوالوں پر انگریزی کے ایک مضمون میں اپنی رائے رکھ چکا ہوں، جو لکھا ہے ان میں سے کچھ باتیں دہرانا چاہتا ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ فیض کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے، ترقی پسند مصنفین کی تنظیم کے ممبر تھے اور آخری سانسوں تک ایک انسانی مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل کا خواب دیکھتے رہے۔ بے روزگاری، غریبی، تشدد اور جنگ کے خلاف شاعری کرتے رہے۔ ان کو انسانیت کی بہترین قدروں میں مکمل یقین تھا اور ان کی شاعری انہی قدروں کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
مگر لاتعداد لوگ ان قدروں میں یقین رکھتے ہیں، پھر فیض کے ہر دلعزیز ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ میرے خیال میں پہلی تو یہ ہے کہ انھوں نے اُردو زبان اور شاعری کے لامحدود خزانے کو، جو پچھلی دو صدیوں میں استادوں نے اکٹھا کیا تھا، خیرباد کہنے کے بجائے اس میں موجود روایات، تشبیہات اور تلمیحات کو کھوج کر انقلابی خیالات کی عکاسی کے لیے، بے حد خوبصورتی سے پرویا۔ مگر فیض کی شاعری صرف اردو کی خوبصورتی، الفاظ کے حسن اور مصرعوں کے میزان و وزن پر نہیں رکی بلکہ انھوں نے کبھی تو روایات اور الفاظ کو نئے معنی دیے اور کبھی ان روایات کو سر کے بل کھڑا کر دیا۔ مثال کے طور پر 'رقیب' کو دعوت دیتے ہیں 'آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے'۔ انتساب نظم میں وہ اپنی شاعری 'وطن'، 'درد کی انجمن'، 'تانگے والوں'، 'ریل بانوں'، 'کلرکوں'، 'دہقاں'، 'بیاہتائوں'، 'طالب علموں'، 'کٹریوں'، 'محلوں' وغیرہ کے نام منسوب کرتے ہیں، نہ کہ اپنی بیوی، بچوں یا دوستوں کے نام۔ دعا کے پہلے شعر میں کہتے ہیں کہ:
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی، ہم جنھیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنھیں سوز محبت کے سوا، کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
نرم الفاظ، نرم لہجہ، اردو شاعری کی ہر روایات کے حد کے اندر، مگر ان روایات کا استعمال بےحد مستحکم، ٹھوس، جدید اور انقلابی خیالات کی عکاسی کے لیے، یہ مہارت فیض کو جس حد تک حاصل تھی اتنی کسی اور شاعر کو حاصل نہیں ہو سکی۔ جو لوگ ترقی پسند مصنفین کے خلاف محاذ آرا تھے اور آج بھی ہیں، وہ فیض کا نام آتے ہی ہمیشہ باادب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دبی زبان سے 'آرام کرسی والے انقلابی' یا 'پارٹی لائن سے ہٹ کر شاعری کرنے والے' جیسے خطاب دے کر انھیں ترقی پسند تحریک سے الگ کرنے کے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ شاید دوسرے خیمے میں ہونے کے باوجود فیض سے دشمنی کی ہمت نہیں پڑتی۔
فیض کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری اور زندگی میں کوئی تضاد نہیں دکھائی دیتا۔ جو خیالات ان کی زندگی کو ڈھال رہے تھے وہی ان کی شاعری کو بھی تراش رہے تھے، ان خیالات کے لیے وہ جیل اور وطن بدر ہونے کی صعوبتوں کو جھیلنے کے لیے ساری زندگی تیار رہے۔ حکام اور حکمراں طبقے سے سمجھوتہ اور عوام اور عوامی جدوجہد سے دوری نہ فیض کو منظور تھی نہ ان کی شاعری کو۔
یہی وجہ ہے کہ فیض اس برصغیر میں آج بھی پڑھے اور گائے جاتے ہیں۔ ان کی نظمیں اور غزلیں وہ ساری حدیں توڑ دیتی ہیں، وہ حدیں جنھیں حکمرانوں اور فسطائی طاقتوں نے پچھلے 70 سالوں میں نفرت کی بنیادوں پر کھڑا کیا اور پروان چڑھایا ہے۔
پاکستان میں 'شدت پسندی' اور ہندوستان میں RSS، بجرنگ دل، درگا واہنی اور ان جیسی نفرت پھیلانے والی لاتعداد تنظیموں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے کئی کارگر ہتھیار فیض احمد فیض نے ہم کو سونپے ہیں جن کا ہم بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔ میں نے ملک کے ہر حصے میں طالب علموں، مزدوروں، کسانوں، ڈاکٹروں، وکیلوں وغیرہ کے احتجاج کے دوران 'بول کہ لب آزاد ہیں تیرے'، 'آج بازار میں پا بہ جولاں چلو'، 'یہ داغ داغ اجالا'، 'نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن'، 'چند روز اور مری جان'، 'ایرانی طلبا کے نام'، 'ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے'، 'ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے'، 'ہم دیکھیں گے' کو طرح طرح استعمال ہوتے ہوئے دیکھا ہے، کبھی گا کر، کبھی تحت الفظ میں، کبھی نعروں کی شکل میں، کبھی پوسٹر کی شکل میں اور کبھی تقریروں کے دوران۔
ایک سوال اور ذہن میں کلبلاتا ہے کہ حکام اور فاشسٹ، ایک نظم، ایک شعر، ایک غزل، ایک کہانی، ایک افسانہ، ایک کتاب سے کیوں اتنا ڈرتے ہیں کہ کتابوں کو جلانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، مصنفوں کو، شاعروں کو جیل بھیج دیتے ہیں۔ مجھے اس کا جواب صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ انقلابی ادب، صرف دل کو نہیں ذہن اور سوچ کو بھی، نسل در نسل متاثر کرتا ہے۔ انقلابی فن اور ادب عوام اور سماج کی شخصیت کو اس طرح ڈھالتا ہے کہ ہر فرد انصاف کی جدوجہد میں شامل ہونے کے لیے ذہنی طور پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حکام اسے انقلابی سیاست کا پہلا اور بڑا قدم مانتے ہیں، اسی لیے اس قدم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جب نیرہ نور نے جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ان کی نظم 'وَیَبقٰی وَجہُ رَبِّکَ' [ہم دیکھیں گے] گائی تو اگلے دن بہت سے سامعین گرفتار کر لیے گئے۔ اسی لیے میرا ماننا ہے کہ 'فیض احمد فیض کو سننا بھی ایک انقلابی عمل ہے'۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Aug 2017, 7:43 AM