کسی کے چاہنے سے اُردو مردہ نہیں ہوسکتی:شمیم حنفی

’ٹائمزآف انڈیا‘ کے لٹریری فیسٹیول کے پہلے دن ’ریختہ‘ کے زیراہتمام ’آج کے ہندوستان میں اردو شاعری‘ کے عنوان سے مذاکرہ کا انعقاد ہوا جس میں اُردو اور اُردوشاعری کے موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

تنویر احمد

’’اُردو کو مٹانا آسان نہیں کیونکہ جس زبان میں کوئی خواب دیکھتا ہے وہی زبان اس کے لیے سب سے بڑی زبان ہے۔ ہم اُردو بولتے ہیں، اُردو میں سوچتے ہیں اور خواب بھی اُردو زبان میں ہی دیکھتے ہیں تو اسے کوئی نہیں مار سکتا۔ کسی کے چاہنے سے اُردو قطعی مردہ نہیں ہو سکتی، بلکہ دنیا کی کوئی زبان حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے زندہ یا مردہ نہیں ہوتی۔‘‘ یہ باتیں اُردو ادب کے مایہ ناز ناقد اور معروف شاعر شمیم حنفی نے آج ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ کے دو روزہ لٹریری فیسٹیول کے پہلے دن کہیں جو ’آج کے ہندوستان میں اُردو شاعری‘ کے عنوان پر مبنی تھا۔ اس موقع پر اُردو سے متعلق ہو رہی سیاست کے سلسلے میں انھوں نے کہا کہ ’’سیاست جس چیز کو ہاتھ لگاتی ہے وہ ذلیل ہو جاتی ہے۔‘‘

معروف اردو شاعر شین کاف نظام اور تاریخ داں و کالم نگار پشپیش پنت کے ساتھ اس مذاکرہ میں شامل شمیم حنفی نے اُردو کو مسلمانوں کی زبان تصور کیے جانے سے متعلق بھی اپنی رائے ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’سب سے پہلے آپ اس غلط فہمی کو اپنے ذہن سے نکال دیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے۔ ایسا قطعی نہیں ہے۔ کیرالہ میں مسلمانوں کی زبان ملیالم ہے، کولکاتا میں بنگالی ہے اور اسی طرح آندھرا پردیش میں تیلگو وغیرہ ہے۔ ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان جو بھی زبانیں بولتے ہیں ان میں اُردو بھی شامل ہے۔ گویا کہ اُردو ہندوستان کی زبان ہے۔‘‘ اُردو شاعری کی تاریخ اور اس کی تہذیب کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ’’ اُردو شاعری کی تاریخ 350 سال پرانی ہے۔ امیر خسرو اور قلبی قطب شاہ جیسے شاعروں نے اس زبان کو اختیار کیا اور آگے چل کر اٹھارہویں صدی میں میر تقی میر، انیسویں صدی میں مرزا غالب اور بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے اُردو کو عالمی سطح پر پہچان دلائی۔ میر تقی میر ہوں، غالب ہوں یا اقبال ہوں، انھوں نے اپنی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کا بھرپور عکس پیش کیا ہے۔ میر کی غزل ’الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘یا اقبال کی لکھی گئی پہلی نظم ’ہمالہ‘ کو دیکھ لیجیے، اس میں ہندوستانی تہذیب اور حب الوطنی کا جذبہ ملے گا۔ اس میں اسلامی تہذیب کہیں نہیں ہے۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

شمیم حنفی نے تقریب میں حاضر اُردو کے شیدائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی تنقید کی جو علامہ اقبال کو مذہبی شاعر یا ہندوستان کو بانٹنے والا شاعر تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ کئی بار ایسا وقت آتا ہے جب کسی سیاسی و سماجی تحریک سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ اقبال کےساتھ بھی ایسا ہی ہوا لیکن آخر دور میں لکھی گئی ان کی نظم ’جاوید نامہ‘ کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلے گا کہ وہ گوتم بدھ کی بھی بات کرتے ہیں، بھرترہری کی بھی بات کرتے ہیں اور اس دنیا سے باہر چاند ستاروں کی بھی بات کرتے ہیں۔ ’جاوید نامہ‘ میں ہندوستانی شخصیات اور ہندوستانی تہذیب کی بہترین عکاسی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔‘‘

’ٹائمز آف انڈیا‘ کے لٹریری فیسٹیول میں اُردو شاعری سے متعلق ہونے والے اس مذاکرہ میں اہم کردار ادا کرنے والے ادبی فورم ’ریختہ‘ نے اس موقع پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں اُردو زبان کے تئیں دلچسپی سے متعلق کئی نکات ماہرین کے سامنے رکھے اور ان سے ان کا نظریہ جاننے کی کوشش کی۔ ’دیوانِ غالب‘ اور ’دیوانِ میر‘ سمیت کئی شاعروں کے کلام دیوناگری میں منتقل کرنے والے شین کاف نظام نے اس موقع پر کہا کہ ’’زبان تہذیبوں کی ہوتی ہے، مذہبوں کی نہیں۔ اُردو شاعری میں ہندوستان کی ساری پرمپراؤں اور ساری روایتوں کی جھلک ملتی ہے پھر ہم اسے محض مسلمان کی زبان کیسے کہہ سکتے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اُردو شاعری تو شہد کی مانند ہے جس میں ہرطرح کے پھول کا رَس ہے اور اس میں کس پھول کا رَس کتنا ہے یہ پتہ لگانا ممکن نہیں۔ اُردو زبان کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے ہر زبان کے الفاظ کو قبول کیا اور اپنے مزاج کے مطابق تھوڑا بہت رد و بدل کر کے اپنا بنا لیا۔‘‘

فلم ’پدماوتی‘ سے متعلق تنازعات کے پس منظر میں شین کاف نظام نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خضر، انار کلی، دیوداس، مجنوں یا پدماوتی اصل زندگی کا حصہ ہیں یا نہیں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ اردو شاعری کے لیے یہ سب زندہ کردار ہیں۔‘‘ اُردو زبان کو ’مسلم‘ طبقہ سے جوڑے جانے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے شین کاف نظام کا کہنا تھا کہ ’’ہندی زبان میں اُردو کا پورا لٹریچر موجود ہے، ہندی والے اُردو لٹریچر کو پسند کرتے ہیں پھر اسے مسلمانوں سے جوڑ کر کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ غالب، میر، فیض، اقبال، ساحر، فراق جیسے شاعروں کو جتنا مسلم پسند کرتے ہیں اتنا ہی ہندو اور دوسرے طبقہ کے لوگ بھی۔ اس لیے اُردو یا اُردو شاعری کو کسی مذہب سے جوڑ کر دیکھنا درست نہیں۔‘‘ اس موقع پر مذاکرہ کی نظامت کر رہے سیف محمود نے ان کی تائید کی اور ملک کے موجودہ ماحول کی عکاسی کرتا ہوا ساغر خیامی کا یہ شعر پیش کیا:

نفرتوں کی جنگ میں دیکھو تو کیا کیا کھو گیا

سبزیاں ہندو ہوئیں بکرا مسلماں ہو گیا

مذاکرہ میں شامل معروف دانشور پشپیش پنت نے کہا کہ کل بھی اُردو شاعری لوگوں کو جوڑنے کا کام کرتی تھی اور آج بھی آپس میں محبت کا پیغام دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ زبان کو بانٹنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس عمل سے ہی آپس میں بنٹوارے کی بنیاد پڑتی ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ زبان ہندوؤں کی ہے یا یہ زبان مسلمانوں کی ہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ ہندوستان کی وراثت کو فراموش کر رہے ہیں۔ یہاں بولی جانے والی ہر زبان ملک کی تہذیبی اور ثقافتی وراثت ہے۔ ہندوؤں کو خوب مزہ آتا ہے جب وہ نظیر اکبر آبادی کی اُردو میں لکھی گئی نظم ’ہولی‘ کو دیوناگری میں پڑھتے ہیں۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں اُردو شاعری میں موجود ہیں جہاں ہندوؤں کے تہوار اور ان کے دیوتاؤں کو موضوع بنایا گیا ہے۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

اُردو کو مٹانے اور اس پر سیاست کرنے والوں کی تنقید کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ ’’ جو لوگ اُردو کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خود روزانہ بول چال کی زبان میں اُردو کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر اتر پردیش کے کسی اسپتال میں انسفلائٹس کے سبب بچے کا انتقال ہو اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اسپتال کا دورہ کریں گے تو اپنے جملوں میں ’خون‘، ’بے چارگی‘، ’مرد‘، ’عورت‘ اور ان جیسے کئی الفاظ کا استعمال کریں گے جس کے بارے میں ان کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ یہ اُردو کے الفاظ ہیں۔ اس لیے میں اُردو کو مسلمانوں سے جوڑنے سے متعلق سیاست پر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا، یہ بحث بلاوجہ ہے۔‘‘

تقریب کے آخر میں سوال و جواب کے سیشن کے دوران سامعین میں سے ایک غیر مسلم اور غیر اُردو داں نوجوان نے پوچھا کہ ابھی تو وہ اُردو شاعری کا مطالعہ ’ریختہ‘ پر دیوناگری میں کر لیتا ہے اور اُردو زبان سے ایک لگاؤ سا ہو گیا ہے، لیکن کیا غیر مسلم نوجوانوں میں اُردو شاعری کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں شمیم حنفی نے کہا کہ ’’مجھے آپ جیسے نوجوانوں سے ہی اُمید ہے جو کل کا مستقبل ہیں۔ جس طرح کوئی مذہبی صحیفہ نہیں جس کا اُردو میں ترجمہ نہ ہوا ہو اسی طرح اُردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ دیوانگری میں منتقل ہو چکا ہے اور جو اس کا مطالعہ کرے گا وہ اُردو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہندی اور اردو کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔اُردو مجھے اس لیے آتی ہے کیونکہ میں نے ہندی بھی پڑھی ہے۔ میری شاعری میں ہندی کے اشعار بھی ہیں۔ میرا، کبیر، سورداس کی شاعری پڑھے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُردو کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔‘‘

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Nov 2017, 9:27 PM