دریا گنج، دہلی: انگریزی کتابوں کی آغوش میں مستقبل سنوار رہی ہیں اُردو کی کتابیں
سریندر دھون نے بتایا کہ ان کی دکان پر روزانہ کم از کم 3 صارفین آتے ہیں اور اُردو کتابیں خرید کر لے جاتے ہیں، بیشتر شاعری کی کتابیں خریدنا پسند کرتے ہیں، مثلاً کلیات اقبال، کلیات جون ایلیا وغیرہ۔
نئی دہلی: راجدھانی دہلی میں جب اُردو کتابوں کی خریداری کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلا نام تاریخی جامع مسجد سے متصل اُردو بازار کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن اس بازار کی اب وہ شناخت نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہاں مرغ و مچھلی فرائی کی دکانوں میں ہوئے بے تحاشہ اضافے سے اُردو کے نہ جانے کتنے کتب خانے بند ہو چکے ہیں، یا پھر جو موجود ہیں وہ سسکیاں لے رہے ہیں۔
اُردو ایک ایسی زبان ہے جس کے بارے میں یہ کہہ پانا مشکل ہے کہ یہ زبان مقبول ہے یا مظلوم۔ اس زبان کی ہمیشہ سے یہ خاصیت رہی ہے کہ نامساعد حالات میں بھی لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ اس کی تازہ مثال دریا گنج میں واقع ’دھون بک‘ نامی دکان ہے جس کو سریندر دھون نامی بزرگ چلاتے ہیں۔ یہاں بیشتر انگریزی یا پھر ہندی زبان میں کتابیں دستیاب ہیں۔ ایک طرف دہلی کے تاریخی اُردو بازار کا دائرہ دن بہ دن سمٹنے سے اُردو طبقے میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف دریا گنج کے سریندر دھون نے انگریزی و ہندی زبان کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اُردو زبان و ادب کی کتابیں رکھنا شروع کر دی ہیں۔ یہ عمل اپنے آپ میں ایک بہترین مثال ہے۔
گزشتہ روز دریا گنج سے گزرتے ہوئے میری نظر انگریزی کتابوں کے درمیان رکھی اُردو کے مشہور و معروف جون ایلیا کی کلیات پر پڑی۔ ہزاروں کی تعداد میں انگریزی کتابوں میں چند ایک کتاب اُردو کی دیکھ کر میرے قدم رک گئے۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور دیکھا کہ یہ تو اچھی بات ہے کہ انگریزی کی کتابوں میں اُردو نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ راقم نے جب سریندر دھون سے سوال کیا کہ جہاں انگریزی زبان کے قارئین آتے ہوں وہاں اُردو کی کتابیں لوگ خریدتے بھی ہیں یا صرف آپ نے سجانے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔ جواب میں سریندر دھون نے کہا کہ پہلے وہ صرف انگریزی اور ہندی کی کتابیں فروخت کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ اُردو کی کتابیں کہاں ملیں گی، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اُردو زبان کی کتابیں بھی رکھی جائیں تاکہ دکان سے کوئی بھی صارف واپس نہ لوٹے۔
سریندر دھون نے بتایا کہ ان کی دکان پر روزانہ کم از کم تین صارفین ایسے ضرور آتے ہیں جو اُردو کی کتابیں خریدتے ہیں۔ بیشتر شاعری کی کتابیں خریدنا پسند کرتے ہیں۔ کلیات اقبال، کلیات پروین شاکر اور کلیات جون ایلیا کو لوگ زیادہ پسند کر رہے ہیں۔ سریندر دھون نے کہا کہ وہ دھیرے دھیرے اُردو کی کتابوں کو اپنی دکان میں رکھنا شروع کر رہے ہیں۔ راقم نے ان سے اُردو زبان کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور پوچھا کہ کیا آپ کو اُردو آتی ہے؟ سریندر دھون نے جواب دیا ’نہیں‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں تصویر دیکھ کر پہچان لیتا ہوں یہ کس کی کتاب ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اُردو کبھی نہ مٹنے والی زبان ہے۔ اس زبان میں جو خاصیت ہے وہ دوسری زبانوں میں نہیں ہے۔ بھلے ہی کسی شخص کو اُردو پڑھنا یا بولنا نہ آئے، لیکن جب اُردو میں بات کی جاتی ہے تو کانوں میں اس کے الفاظ رس گھولنے لگتے ہیں۔ اس زبان کو سیکھنے سے بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔‘‘
سریندر دھون نے بتایا کہ وہ تقریبا 25 سال سے کتابوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ پہلے وہ ہر اتوار کو پٹری پر کتاب فروخت کیا کرتے تھے، لیکن کچھ سالوں سے جب دریا گنج کا تاریخی کتب بازار ختم ہونے سے زیادہ تر دکانداروں نے دکان لے کر کتابیں فروخت کرنا شروع کر دی ہیں، تو میں نے بھی دکان لے لی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مستقبل میں اُردو کی مزید کتابیں قارئین کے لیے ان کی دکان پر دستیاب ہوں گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔