دریا کی لہریں، ذرا یہ سرکشی کم کرلیں .. جاوید اختر
جس زبان میں جوش، فیض و مجاز جیسے شاعر موجود ہوں اس زبان کی شاعری کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سماج میں ظلم و استبداد کا دور دورہ ہو اور اردو شاعر خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے۔
اردو شاعری سے بغاوت کی بو نہ آئے تو پھر وہ اردو شاعری ہی نہیں۔ جس زبان میں جوش، فیض و مجاز جیسے شاعر موجود ہوں اس زبان کی شاعری کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سماج میں ظلم و استبداد کا دور دورہ ہو اور اردو شاعر خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے۔ مودی راج میں سنگھ کے پرچم تلے چل رہے ’موب لنچنگ‘ جیسے شرمناک واقعات کے خلاف اردو شاعری میں بہت ساری آوازیں اٹھتی رہیں۔ لیکن اردو شاعری کے باغیانہ تیور کو جس خوبصورتی سے جاوید اختر نے سنہ 2017 میں کہی اپنی نظم میں ظاہر کیا وہ اردو شاعری کو چار چاند لگانے والی بات ہے۔ جاوید اختر کو ان کے فن شاعری کے لیے سنہ 2017 کا بہترین شاعر کہا جائے تو قطعاً غلط نہ ہوگا۔ اس نظم پر جاوید اختر کو مبارکباد کے ساتھ پیش خدمت ہے سنہ 2017 کی سب سے بہترین اردو نظم ’’نیا حکم نامہ‘‘۔
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا
اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس
اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افس ہوں گے
جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا
کتنا گہرا، کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
گلستاں میں کہیں بھی
پھول یک رنگی نہیں ہوتے
کبھی ہوہی نہیں سکتے
کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر
بہت سے رنگ رہتے ہیں
جنہوں نے باغ
یک رنگی بنانا چاہے تھے
ان کو ذرا دیکھو
کہ جب اک رنگ میں
سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو
وہ اب کتنے پریشاں ہیں
وہ کتنے تنگ رہتے ہیں
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں
کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں
حاکموں کی مٹھیوں میں
ہتھکڑی میں قید خانوں میں
نہیں رکتیں
یہ لہریں
روکی جاتی ہیں
تو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں
بے تاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم
سیلاب ہوتا ہے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Dec 2017, 8:39 AM