علامہ اقبال: ایک مسلم ریاست ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا مقدر ہے

علا مہ محمد اقبال
علا مہ محمد اقبال
user

قومی آواز بیورو

علامہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں بلکہ مفکر بھی تھے ۔ ان کے خیالات نے نہ صرف بر صغیر ہند بلکہ دنیا کے مسلمانوں پر فکر ی سطح پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔اکثر علامہ اقبال کو بانی پاکستان بھی کہا جا تا ہے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ انہوں نے کبھی پاکستان لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ لیکن فکری اور نظریاتی سطح پر انہوں نے اپنے مشہور دو خطبوں ( آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس 1930 اور آل انڈیا پار ٹیز مسلم کانفرنس دہلی جو 1930 کے بعد ہوئی)میں مسلم مسائل کا جو حل پیش کیا اس نے آگے چل کر پاکستان کا ہی روپ لیا جس کی بات انہوں نے کھل کر آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں کی تھی۔

آج علامہ اقبال کے140 ویں یوم پیدائش پر بر صغیر ہند کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آیا اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل کا جو بل پیش کیا تھا اس سے بر صغیر ہند کے مسائل حل ہوئے یا اور پیچیدہ ہو گئے۔ پیش خدمت ہے علامہ اقبال کے ان دو خطبوں کے اقتباسات جس کو پڑھ کر قاری اس سلسلے میں اپنی رائے خود قائم کرسکتا ہے۔

’’حضرات ! میں آپ کا بیحد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کا اعزاز ایک ایسے وقت میں بخشا ہے جو ہندوستان میں مسلم سیاسی فکر و عمل کی تاریخ میں نازک ترین لمحہ ہے۔یہ بڑی جسارت ہو گی کہ جن سیاسی فیصلوں کے لئے وہ آج یہاں جمع ہوئے ہیں ان کے سلسلے میں ان کی راہنمائی کا دعویٰ کروں ۔ میں کسی جماعت کا راہنما نہیں ہوں اور نہ ہی کسی راہنما کا پیرو ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ اسلام، اس کے نطام سیاست و قانون ، اس کی ثقافت ، اس کی تاریخ اور اس کے ادب کے مطالعہ میں صرف کیا ہے‘‘۔۔۔۔
’’ میں نہیں چاہتا کہ جس انداز سے میں اس اہم مسئلے کو دیکھ رہا ہوں اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے ، میں ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں ۔آپ کا اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ اسلام کے مقاصد اور اس کی روح سے وفادار رہنے کے خواہش مند ہیں ۔ ،میرا واحد مقصد یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال کے بارے میں جو میری دیانت دارانہ رائے ہے اس کا صاف صاف اظہار کر دوں۔ میرے خیال میں صرف یہی ایک صورت ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقاید کی روشنی سے منور کر سکوں‘‘۔۔۔۔
’’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی نصب العین تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کو رد کر کے نظریۂ قومیت کی بنیاد پر سیاسی نظامات اختیار کر لیں جس میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہندوستان میں یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں۔‘‘۔۔۔۔
’’یہ (مذہب) محض حیاتیاتی نوعیت کی واردات نہیں جس کا تعلق صرف تجربہ کرنے والے کی اندرونی ذات سے ہو اور اس کے معاشرتی ماحول پر کوئی ردِّ عمل نہ ہو۔ یہ انفرادی واردات ہی ایک معاشرتی نظام کی تخلیق کا باعث ہوا۔ اس کی معاشرتی اہمیت کو محض اس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی بنیاد وحی والہام ہے اس لئے اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے اس لئے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ نظامِ سیاست کو ایسے قومی خطوط پر مرتب کیا جائے جس سے اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہو جائے۔‘‘۔۔۔۔

حسب ذیل دو پیرا گراف علامہ اقبال کے اس خطبہ کا اقتباس ہیں جو انہوں نے دہلی میں ہو نے والی ’ آل پار ٹیز مسلم کانفرنس ‘ میں دیا تھا۔ اس خطبے میں پاکستان کا نظریاتی خاکہ صاف جھلک رہا ہے:

’’ہندوستان ایک برّ اعظم ہے جس میں مختلف نسلوں، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب کے لوگ ہیں۔ ان کے اعمال وا فعال میں وہ احساس موجود نہیں جو ایک ہی نسل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہندو بھی کوئی جماعت نہیں ہیں ۔ ہندوستان میں یورپی جمہوریت کے اصول کا اطلاق مذہبی فرقوں کے وجود کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے۔ میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقدہ دہلی کی قرارداد کا محرک یہی بلندنصب العین ہے کہ ایک ہم آہنگ کل قیام کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اجزاء کی انفرادیت کا گلہ گھونٹنے کے بجائے انہیں موقع دیئے جائیں کہ وہ ممکنہ قوتوں کو بروئے کارلا سکیں جو ان میں پوشیدہ ہیں ۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایوان مسلم مطالبات کی جو اس قرارداد میں موجود ہیں پورے شد و مد سے تائید کرے گا۔‘‘۔۔۔۔
’’میں ذاتی طور پر ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کئے گئے ہیں۔۔۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب بشمال مغربی سرحدی صوبہ سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دی جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط مسلم ریاست ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا آخری مقدر ہے۔‘‘۔۔۔۔۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Nov 2017, 4:47 PM