منفرد طرز کا افسانہ نگار، ذاکر فیضی
ذاکر فیضی نے بہت زیادہ تو نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے اس نے پڑھنے والوں اور ناقدین کو چونکایا ضرور ہے۔ ان کا اسلوب نگارش بھی جدید ہے اور موضوعات بھی آج کے ہیں۔
افسانہ جدید صنعتی اور مشینی دور کی پیداوار ہے۔ اردو میں مختصر افسانہ انگریزی ادب کے وسیلے سے متعارف ہوا۔ اردو میں افسانہ نگاری کا باوا آدم کون ہے اس سلسلے میں محققین کے متضاد دعوے ہیں۔ محققین کا ایک طبقہ اردو کا پہلا افسانہ نگار ہونے کا سہرا منشی پریم چند کے سر باندھ چکا ہے تو ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار قرار دے دیا ہے۔ پہلے افسانہ نگار کے طور پر کچھ محققین سرسید کا نام بھی لیتے ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے اس امر پر کوئی بحث اور تنازعہ نہیں ہے کہ بھلے ہی اردو افسانہ کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن وہ اردو نثر کی سب سے زیادہ مقبول صنف بن چکی ہے۔ منشی پریم چند، سجاد یلدرم، منٹو، کرشن چندر،عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر اور جوگیندر پال سے لے کر قاضی عبدالستار، سید محمد اشرف نور الحسنین اور اقبال مجید تک اور اس کے بعد جدید دور کے پیغام آفاقی، مشرف عالم ذوقی، پرویز شہر یار، اسلم جمشید پوری، احمد صغیر، اختر آزاد، غضنفر، سید محمد اشرف، سلام بن رزاق، خورشید حیات، صغیر رحمانی، شبیر احمد، رضوان الحق، شموئل احمد، خالد جاوید، صدیق عالم، شائستہ فاخری، صادقہ نواب سحر، غزال ضیغم، کنول جعفری اور نورین علی حق تک افسانہ نگاروں کی بہت بڑی تعداد عصری تقاضوں کے تحت افسانے تحریر کر رہی ہے۔ ان ہی میں ایک نام ڈاکٹر ذاکر فیضی کا بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : صاحب طرز فکشن نگار اسلم جمشید پوری
ذاکر فیضی نے بہت زیادہ تو نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے اس نے پڑھنے والوں اور ناقدین کو چونکایا ضرور ہے۔ ان کا اسلوب نگارش بھی جدید ہے اور موضوعات بھی آج کے ہیں۔ ذاکر فیضی کے فن اور ان کے طرز تحریر پر بات کرنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے ہمیں جگر کے شہر مراد آباد کا رخ کرنا پڑے گا۔ پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب تاجر جرار حسین مراد آباد کے باعزت گھرانے کے فرد ہیں۔ 1972 میں ان کے یہاں ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ نام تجویز کیا گیا ذاکر حسین۔ ذاکر حسین کی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز مرادآباد، دہلی اور حیدرآباد رہا۔ حیدر آباد کی MANUU سے بی اے کیا۔ مراد آباد سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ معلم اردو کی ڈگری جامعہ اردو علی گڑھ سے حاصل کی۔ ماس کام، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری دہلی کی جے این یو سے حاصل کی۔ 2012 میں ایم فل اور 2016 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم فل میں مقالے کا موضوع 'غضنفر کی افسانہ نگاری کا تجزیہ' تھا جبکہ پی ایچ ڈی کے لئے تحقیقی مقالہ پروفیسر انور پاشا کی نگرانی میں 'عبداللہ حسین کی ناول نگاری کا تہذیبی و سماجی مطالعہ' کے موضوع پر تحریر کیا۔ ذاکر فیضی اس وقت ہریانہ کے گروگرام کے تعلیمی ادارے 'شکشانتر' سے وابستہ ہیں۔
ذاکر حسین سے ذاکر فیضی بننے کا سفر بھی جلد ہی شروع ہو گیا تھا۔ ادبی ذوق نو دس برس کی عمر سے ہی ان کے اندر نشو و نما پانے لگا تھا۔ ذاکر فیضی کے اندر ادبی ذوق پیدا کرنے کا سہرا اگر رامپور سے شائع ہونے والے بچوں کے ماہنامے 'نور' کے سر باندھا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔ اس کی کہانیاں اور اس کا کالم 'ریڈیو نورستان' کا مطالعہ کرتے کرتے خود ان کے اندر ادب تخلیق کرنے کی ابتدائی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی۔ ذاکر فیضی نے اپنی پہلی کہانی بھی اسی دوران لکھ کر ماہنامہ 'نور' کو ارسال کردی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کہانی زیور اشاعت سے آراستہ ہونے سے محروم رہ گئی تھی۔ آج ذاکر فیضی کو اس کہانی کا صرف عنوان ہی یاد ہے۔ انہوں نے کہانی میں کیا لکھا تھا وہ اب تحت الشعور میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کی پہلی کہانی کا عنوان تھا 'جیسی کرنی ویسی بھرنی' اس درمیان ذاکر فیضی کو ہندی کامکس پڑھنے کا چسکا لگ گیا تھا اور کہانیاں لکھنے کا سودا ان کے سر سے اتر گیا تھا۔ لیکن اس سودے نے سولہ سترہ برس کی عمر میں اس وقت پھر سر اٹھایا جب انہیں اپنے پھوپی زاد بھائی سید عرفان علی فہیم سے قربت حاصل ہوئی۔ جو اس وقت افسانے لکھ رہے تھے اور ان کی تحریریں اخبارات اور رسائل میں شائع ہو رہی تھیں۔ اپنے پھوپی زاد بھائی کے توسط سے انہیں کئی اہل قلم افراد کی صحبتیں نصیب ہوئیں جس سے ان کی ادبی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملی، ذاکر فیضی کو افسانے لکھتے ہوئے تقریباً تین دہائیاں ہو گئی ہیں۔ ان کے افسانے اردو کے معتبر اور موقر رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ۔پاکستان سے شائع ہونے والے معروف ادبی جریدے 'چہار سو' میں بھی ان کے افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں اردو ادب کے منتخب افسانوں کے مجموعے 'سرخاب' میں ذاکر فیضی کی کہانی 'ٹوٹے گملے کا پودا' کو شمولیت کا اعزاز حاصل ہے، آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اور رامپور اسٹیشنوں سے ان کی 20 کہانیاں نشر ہو چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : کیا ہندوستان کا سیکولر کردار ختم ہو گیا؟... سہیل انجم
کسی قلم کار کی ادبی حیثیت کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ معروف زمانہ ناقدوں اور ادیبوں کی اس کے فن کے بارے میں کیا رائے ہے۔ آیئے ذرا اس پیمانہ پر ذاکر فیضی کے اسلوب اور فن کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معروف فکشن نگار شموئل احمد کی رائے میں'' فیضی میں بڑے افسانہ نگار کی جھلک ملتی ہے۔''
پیغام آفاقی جیسے فکشن نگار کا ذاکر فیضی کے بارے کہنا ہے کہ'' فیضی کے اندر ایک عمدہ افسانہ نگار ہے جو اپنے انداز میں افسانے لکھ رہا ہے۔''
فکشن کے ایک اور معروف اہل قلم شبیر احمد مشورہ دیتے ہیں کہ'' ذاکر فیضی آپ کے اندر ایک افسانہ نگار موجود ہے آپ لکھتے رہئے۔''
معروف فکشن نگار اور ناقد اسلم جمشید پوری کی رائے ذاکر فیضی کی افسانہ نگاری اور افسانوی مجموعے 'نیا حمام' کے بارے میں یہ کہا ہے کہ 'انسانی اقدار اور گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے 'نیا حمام' نیا پن لئے ہوئے ہے۔ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی پذیرائی ہو چکی ہے۔
سماجی رشتوں کے تانے بانے بنتا ہوا یہ مجموعہ دیگر فکشن نگاروں کے دل میں بھی جگہ بنا چکا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر فیضی کے افسانے، 'نیا حمام، 'ٹوٹے گملے کا پودا'، 'فنکار'، 'ٹی او ڈی'، 'وائرس'، 'اسٹوری میں دم نہیں'، 'مردوں کی الف لیلیٰ'، 'کوڑا گھر'، 'ورثے میں ملی بارود'، 'ہٹ بے'، 'اخبار کی اولاد'، 'بدری'، 'لرزتی کھڑکی'، 'کلائمکس' اور 'دعوت نان ویج'، غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ افسانے سماج کا کرب لئے ہوئے ہیں۔ ان افسانوں میں بے روزگاری، تشدد، بھوکمری، جنس، کرپشن وغیرہ موضوعات کو عمدگی سے پرویا گیا ہے۔''
ذاکر فیضی سماج میں بکھرے ہوئے مسائل میں لکھنے کے لئے کس کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنے پلاٹ کے ارد گرد الفاظ کا کیسا تانا بانا بنتے ہیں اس کی بانگی ان کے افسانچے 'جھٹکے کا گوشت' پڑھ کر مل جائے گی۔
''ہوٹل کے ایک کمرے میں صاحب نے کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے روم سروس کو تاکید کی۔۔۔ ”اور ہاں دیکھو میٹ حلال کا ہونا چاہئے۔ میں جھٹکے کا گوشت نہیں کھاتا ہوں۔“
”جی بالکل سر! ہمارے یہاں ذبح کیا ہوا گوشت ہی ملتا ہے۔“
لڑکا آرڈر لے کر جانے لگا تو صاحب نے پھر آواز دی۔”ارے سنو۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔یہ بتاؤ“۔۔۔۔۔۔۔ صاحب نے جھجھکتے ہوئے اپنی ناک پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔”۔یہاں یہ گوشت بھی ملتا ہے۔ میرا مطلب سمجھ رہے ہونا۔۔۔۔۔۔۔گرم گوشت!“
”کیوں نہیں سر! بالکل ملتا ہے۔“
”تو ڈنر کے بعد اس کا بھی آرڈر لکھ لیں۔“
”ٹھیک ہے سر!“ لڑکے نے کہا۔ جاتے جاتے رکا اور پیچھے مڑ کر صاحب سے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔”۔سر! یہ گرم گوشت حلال کا ہو یا۔۔۔۔۔۔؟“
یہ بھی پڑھیں : راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا... ظفر آغا
ذاکر فیضی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ 'نیا حمام' کے عنوان سے منظر عام پر آکر پڑھنے والوں کو تازگی کا احساس کرا چکا ہے۔ا پنا افسانوی مجموعہ ترتیب دینے کی دلچسپ وجہ ذاکر فیضی کے سامنے وارد ہوئی جو کسی بھی قلم کار کو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے تعلق سے کچھ بھی کر گزرنے کو مجبور کرسکتی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ ذاکر فیضی کی شریک حیات نے مصنوعی غصے میں ہی سہی لیکن یہ دھمکی دیدی تھی کہ 'اگر جلد ہی انہوں نے اپنی کہانیوں کی کتاب شائع نہیں کی تو وہ سب سے کہہ دیںگی کہ ذاکر فیضی فرضی رائٹر ہیں'۔ شریک حیات کی دھمکی کام کر گئی اور نتیجہ 'نیا حمام' کی صورت میں برامد ہوا۔ شریک حیات کا احسان مانتے ہوئے ذاکر فیضی نے اپنے مجموعے کا انتساب ان ہی کے نام کر دیا۔ مجموعہ 25 افسانوں اور 5 افسانچوں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعے کو یو پی اردو اکادمی انعام سے نواز چکی ہے۔ اس وقت ذاکر فیضی ایک ناول تحریر کرنے میں مصروف ہیں۔ اردو فکشن نگاری میں ذاکر فیضی کا آئڈیل کوئی نہیں ہے البتہ جوگندر پال، منٹو، قاضی عبدالستار، سید محمد اشرف اور نور الحسنین سے وہ کافی متاثر ہیں، لیکن ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ ان کی خود کی تحریریں ان افسانہ نگاروں کے طرز تحریر کی چھاپ سے اچھوتی رہیں۔ صحت مند ادب پڑھنے والوں کو ذاکر فیضی کے ناول کا انتظار ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔