زاہدہ حنا: قلم کی مجاہدہ، بے باک کالم نگار، سیاسی تجزیہ نگار، فکشن نگار اور شاعرہ

زاہدہ حنا کی شخصیت ہمہ گیر ہے۔ وہ بے باک کالمنگار بھی ہیں اور سیاسی تجزیہ نگار بھی۔ وہ فکشن نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی۔ وہ پاکستانی ٹیلی ویزن کے کئی مقبول ڈراموں کی رائٹربھی ہیں

<div class="paragraphs"><p>زاہدہ حنا / تصویر جمال عباس فہمی</p></div>

زاہدہ حنا / تصویر جمال عباس فہمی

user

جمال عباس فہمی

زاہدہ حنا کی شخصیت ہمہ گیر ہے۔ وہ بے باک کالمنگار بھی ہیں اور سیاسی تجزیہ نگار بھی۔ وہ فکشن نگار بھی ہیں اور شاعرہ بھی۔ وہ پاکستانی ٹیلی ویزن کے کئی مقبول ڈراموں کی رائٹربھی ہیں۔جتنی مقبول وہ پاکستان میں ہیں اتنی ہی معروف ہندستان کے ادبی اور صحافتی حلقوں میں بھی ہیں۔انکے کالموں اور افسانوں کے مجموعے جہاں اردو میں شائع ہوئے وہیں ہندی قارئین بھی انکی تحریروں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔فیض احمد فیض جیسی شخصیت نے زاہدہ حنا کے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔۔ جرئت مند ایسی کہ فوج کی آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج میں امتیازی کارکردگی کے لئے ملنے والے صدارتی اعزاز کو ٹھکرا دیا۔زاہدہ حنا کا ہندستان سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ بہار کے سہسرام میں پیدا ہوئیں اور برصغیر ہندو پاک کے مقبول شاعر جان ایلیا امروہوی کی13 برس تک رفیق حیات بھی رہیں۔

زاہدہ حنا کی قلمی کاوشوں کا تفصیل سے جائزہ لینے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر ادبی رجحان اور صحافتی زندگی کا مطالعہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔زاہدہ حنا 5اکتوبر 1946 میں ریاست بہار کے شہر سہسرام میں پیدا ہوئی تھیں۔تقسیم وطن کے بعد1947 میں انکے والد محمد ابوالخیر ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔زاہدہ حنا کی رگوں میں مجاہد آزادی اور اہل قلم کا خون گردش کررہا ہے۔انکے جد مرزا دلدار بیگ نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا جسکی پاداش میں انہیں پھانسی کی سزا ملی تھی۔مرزا دلدار بیگ کے فرزند عبدالستار بیگ سہسرامی اہل قلم تھے انہوں نے تین جلدوں پر مشتمل'مسالک السالکین فی تزکرۃ الواصلین 'تحریر کی تھی۔زاہدہ حنا کے دادا انگریز حکومت میں ڈپٹی کلکٹرتھے لیکن انکے والد محمد ابو الخیر انگریزوں کے خلاف بغاوت اور شورش میں پیش پیش تھے جسکی پاداش میں انہوں نے ڈھائی برس جیل میں گزارے۔جہاں تک گھر کے تعلیمی ماحول کا معاملہ ہےانکے خاندان میں انگریزی تعلیم کا چلن انیسویں صدی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی علمی اور ادبی ذوق کی حامل تھیں۔جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں زاہدہ حنا اردو اور فاری کا کلاسیکی ادب پڑھ رہی تھیں۔انکے اندر شعر و ادب، تاریخ و فلسفہ کی دلچسپی پیدا کرنے والے انکے والد تھے۔زاہدہ حنا نے' مہا بھارت'،جوگ وششٹھ' اور 'شاہنامہ فردوسی' کے قصے والد سے سن سن کر زندگی کے گر سیکھے۔1951 سے1958 تک گھر میں والد کی نگرانی میں اردو، فارسی ،انگریزی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔1962میں میٹرک کیا۔1966میں گریجویشن کیا۔گھر کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک اسکول میں کیشئر کی ملازمت بھی کی۔مضمون نگاری کی ابتدا 1966میں ہوئی۔ پہلا افسانہ' فردوس گشتہ' 1963 میں لکھا جو' ہم قلم 'میگزین میں شائع ہوا۔صحافتی زندگی کا آغاز 'اخبار خواتین' سے ہواجہاں انکا تقرر اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر ہوا۔ انکی صحافیانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئےانکا ٹرانسفر روز نامہ 'مشرق'میں کردیا گیا۔ڈھائی برس تک وہ وائس آف امریکہ کے کراچی آفس سے بحیثت فیچر رائٹر اور پروڈیوسروابستہ رہیں۔1970 سے1982 تک عالمی ڈائجسٹ کی مدیر رہیں۔1987میں بی بی سی اردو سروس سے پروگرام پروڈیوسر کے طور پر وابستہ ہو کر لندن چلی گئیں لیکن سوا برس بعد ہی مستعفی ہو کر کراچی واپس آگئیں۔1988 سے2006 تک روز نامہ جنگ کے لئے کالم' نرم گرم'لکھا۔2006سے زاہدہ حنا روز نامہ' ایکسپریس 'میں کالم لکھ رہی ہیں۔زاہدہ حنا کے کالموں کی تعداد بے شمار ہے، ہفتہ میں دو کالم مہینے میں 8 اور ایک سال میں 96۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے کالموں کی تعداد کتنی ہوگی۔


زاہدہ حنا کی زندگی میں ایک اہم موڑ 1970 میں شاعر جون ایلیا سے شادی کی صورت میں آیا۔ دونوں کی مرضی سے ہوئی یہ شادی دونوں میں سے کسی کو بھی راس نہیں آئی۔محض تیرہ برس میں نوبت یہ آگئی کہ دونوں نے اپنی زندگی کے لئے علیحدگی کی راہ تلاش کرلی۔ جون ایلیا اور زاہدہ حنا میں سے کسی ایک نے بھی اپنی ناکام ازدواجی زندگی کے بارے میں کبھی زبان نہیں کھولی۔زاہدہ حنا نے اگر کبھی کچھ کہا بھی تو بس اتنا کہ 'شادی کا فیصلہ ہم دونوں کا تھا اور دونوں کو اپنے اس فیصلے پر افسوس رہا'۔جون ایلیا نے ایک شعر میں جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا۔

ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر

کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا

ناکام ازدواجی زندگی کا کرب زاہدہ حنا کے ان اشعار میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

کیا وفا و جفا کی بات کریں

درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں

۔۔

ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی

اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں

ان کی تین اولادیں ہیں ۔دو بیٹیاں فنانہ اور سہانا اور ایک بیٹا زریون ہے۔باپ اور ماں کی شاعری کے جوہر زریون میں منتقل ہوئے ہیں۔وہ ایک مقبول شاعر ہیں۔

زاہدہ حنا کی حقیقی شناخت دو حوالوں سے زیادہ ہے۔ ایک افسانہ نگار اور دوسرا کالم نگار۔۔دونوں حوالوں سے وہ سچائی اور حق و انصاف کی علمبردار نظر آتی ہیں۔بحیثیت افسانہ نویس اور بحیثیت کالم نگار انکی آواز بہت بلند اور مضبوط ہے۔زاہدہ حنا کی تحریریں صداقت اور بغاوت سے عبارت ہیں۔نا انصافی اور ہر قسم کی غلامی سے نفرت زاہدہ حنا کے خون میں اپنے خاندانی ورثہ کے طور پر منتقل ہوئی ہے۔جو انکی تحریروں میں نمایاں ہے۔زاہدہ حنا کی کالم نگاری کو علمی، ادبی اور سیاسی حلقوں میں معتبر سمجھاجاتا ہے۔زاہدہ حنا نے صرف خواتین سے متعلق موضوعات پر قلم اٹھانے تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے انسان ، انسانی مسائل و مشکلات پر قلم اٹھایا ہے ۔ افسانے ہوں یا کالم انکا موضوع انسانی دکھ،انسانی مسائل ،حقوق انسان اور انسا ن سے متعلق ہر قسم کے معاملات ہی رہا ہے۔انکے کالم سیاسی وفاداری سے آلودہ نہیں ہیں۔کالم نگاری کے گرتے ہوئے معیار سے وہ بہت فکر مند ہیں۔ایک جگہ انہوں نے لکھا کہ”کالموں کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ کی طرح ان کا میڈیا ونگ بھی وجود میں آ چکا ہے۔ بہت سے کالم نگاروں کی تحریر سے صاف جھلکتا ہے کہ ان کا تجزیہ بے لاگ نہیں اور وہ کسی خاص سیاسی جماعت کے نقطہ نظر کی وکالت کر رہے ہیں۔ یہ بات پڑھنے والوں کو ناگوار گزرتی ہے اور کالم نگار کی غیر جانبداری پر حرف آتا ہے“ ۔ہندستان کے معروف ہندی روز نامہ' دینک بھاسکر' میں بھی انکا ایک کالم طویل عرصے سے قارئین کا پسندیدہ کالم بنا ہوا ہے۔جون ایلیا کی طرح وہ بھی ہندستان اور پاکستان میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔زاہدہ حنا بنیادی طور پر ادیبہ ہیں اس لئے کالم نگاری میں بھی ادبی عنصر نمایاں رہتا ہے۔ وہ تواتر کے ساتھ ہر طرح کے موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ ان کی تحریر میں ماضی کا حال بھی ہے اورمستقبل کی جھلک بھی۔ وہ حال پر بھر پور اور گہری نظر رکھتی ہیں اور مستقل کے لیے اظہار رائے بھی کرتی ہیں۔انکے افسانوں میں مختلف تہذیبوں اور تاریخی واقعات کے گہرے مطالعے کی جھلک ملتی ہے۔


'زیتون کی ایک شاخ' افسانے کا یہ اقتباس دیکھئے اس میں تقسیم وطن کا کرب بھی ہے،مشترکہ وراثت کے کھونے کا غم بھی ہے۔پاکستان میں خود کو مہاجر کہے جانے کا درد بھی ہے اور فلسطینیوں کی مظلومیت کا بیان بھی ہے۔ اس افسانے میں قصہ ایک جوان امریکی فوجی کا ہے جو با دل نا خواستہ ویتنام کی جنگ میں جانے کو مجبور ہے۔

'' ہم نے ایک ملک کوتقسیم تو کردیا لیکن اپنا ماضی کاٹ کر نہ پھینک سکے۔ ہماری کتنی ہی چیزیں وہیں رہ گئیں کیونکہ وہ دھرتی کا حصہ تھیں۔تاج محل جس پر تم امریکی جان دیتے ہو ہم نے بنایا۔غالب جسکی شاعرانہ عظمت کے ڈنکے ان دنوں انگلستان میں پٹتے ہیں وہ ہمارا تھا۔ہم میں سے تھا۔اشوک کے کتبے اور نالندہ کے کھنڈرات جتنے انکے تھے اتنے ہی ہمارے بھی تھے۔سب کچھ انکا اور ہمارا مشترک سرمایہ تھا۔تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آئےگی۔تم نے صرف ہماری تاریخ پڑھی ہے ہمارا ادب نہیں پڑھا۔تم کچھ نہیں جانتے۔ہمیں سمجھنا ہے تو پہلے ہمارا ادب پڑھو۔۔۔۔۔۔تمہارے نام کے ساتھ کوہن لگا ہےتم یہودی ہو۔تم نے سیکڑوں برس ہجرت کا عذاب سہا ہے۔لیکن کیسی دلچسپ بات ہیکہ تم ان فلسطینیوں کا دکھ نہیں سمجھتے جنہیں اپنے گھروں سے نکلنا پڑااور تم ہمارے عذاب بھی نہیں سمجھ سکتے۔ہم کہ پہلے برٹش انڈیا کی قومیت رکھتے تھےاور اب پاکستان میں مہاجر ہیں۔ہم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں۔تمہیں یرمیاہ جیسا نوحہ گر ملا تھا لیکن ہمیں تو کوئی یرمیاہ بھی میسر نہیں آیا۔''

ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔مختلف زبانوں میں تراجم کے ذریعے انکےافسانے دنیا بھر میں مقبول ہیں ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ایک افسانے کا انگریزی ترجمہ اردو کے معروف شاعر فیض احمد فیض نے کیا ہے۔انہوں نےپاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ’’زرد پتوں کا بن‘‘ بہت مقبول ہوا ۔انہیں درجنوں ایوارڈس سے نوازہ جا چکا ہے۔بے باک صحافت کے لئےانہیں فیضؔ احمد فیضؔ ایوارڈ ملا۔ کے پی ایوارڈ، ستور ایورڈ ،سندھی اسپیکر ایوارڈ اورساغر صدیقی ایوارڈ کے علاوہ سب سے بڑا ایوارڈ سارک لیٹریری ایوارڈ بھی انکے حصے میں آیا۔2006ء میں اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انہوں نے ملک میں ملٹری حکومت ہونے کی وجہ سے احتجاجاً یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔اس دور میں کہ جب بر صغیر ہند و پاک میں صحافت سیاسی وفاداریوں کی وباسے آلودہ ہے زاہدہ حنا نے اس وبا سے خود کو محفوظ رکھاہے۔انہیں قلم کی مجاہدہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔

آخر میں پیش ہے انکی غزل کے کچھ اشعار

جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں

دل کسی طور مانتا بھی نہیں

درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے

میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں

ہر تمنا سراب بنتی رہی

ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں

وقت اتنا گزر چکا ہے حناؔ

جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔