’اردو صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ ہندوستانی اور عالمی زبان ہے‘
نیو کالج، میاسی کے چیئر مین، سلطنت والا جاہی خاندان کے چشم و چراغ نواب عبد العلی عظیم جاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو سے شیریں کوئی زبان نہیں ہے
چنئی: شعبہ اردو نیو کالج، چنئی کے زیر اہتمام دوروزہ بین الاقوامی ویبنار کا انعقاد بعنوان ’’اردو کی شعری اورونثری اصناف“ منعقد کیا گیا، جس میں ملک وبیرون ملک کے اردو محققین، ناقدین، پروفیسرز اور ریسرچ اسکالروں نے شرکت کی اور اردو کے شعری و نثری اصناف پر اپنے مقالے اور خطبات پیش کئے۔
نیو کالج، میاسی کے چیئر مین، سلطنت والا جاہی خاندان کے چشم و چراغ نواب عبد العلی عظیم جاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو سے شیریں کوئی زبان نہیں ہے۔ اردو کے تئیں لوگوں کی اس غلط فہمی کو میں دور کردینا چاہتاہوں جو یہ کہتے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ اردو ہندوستان کی زبان ہے اور آج کے اس عالمی ویبنار سے معلوم ہواکہ یہ ایک عالمی زبان ہے۔
میاسی کے سابق سکریٹری اے محمد اشرف، میاسی کے خازن الیاس سیٹھ اور نائب سکریٹری منڈی اسلم نے مشترکہ طور پر یہ بات کہی کہ اردو کو فروغ دینے کے لیے شعبہ اردو نیوکالج، چنئی اپنے قیام کے روز اول سے ہی کوشاں ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں،ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ پورے تمل ناڈو میں یہ واحد ادارہ ہے جہاں بی اے اردو کی تعلیم کا نظم ہے، لیکن اردو اساتذہ اوردانشوران کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اردو کو روز گار سے جوڑا جائے تاکہ اردو پڑھنے والے طلباء احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔
پروفیسر سید سجاد حسین سابق صدر شعبہ اردو، مدراس یونیورسٹی نے کلیدی خطاب میں تمام اصناف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو کے شعری اصناف دوطرح کے ہیں، ایک بلحاظ موضوع جس میں حمدباری تعالی، نعت شریف، غزل، قصیدہ، مرثیہ وغیرہ شامل ہے اور دوسرا بلحاظ ہیئت جس میں مثنوی، رباعی، قطعہ، مسمط، مسدس، ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ شامل ہے۔
الازہر یونیورسٹی مصرکے شعبہ اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نہا مصطفی محمود سعد نے پیروڈی اور ابن انشا کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیروڈی نثر اور شعر دونوں میں پائی جاتی ہے، لیکن اشعار میں پیروڈی کرنا نثر کے مقابلہ میں زیادہ آسان ہے۔ چونکہ اشعار میں ایک دو الفاظ کی تحریف سے پیروڈی کا عمل آسان ہوجاتا ہے جبکہ نثر میں پیروڈی کرنے کے لیے پورے پورے پیراگراف کی تبدیلی کرنی ہوتی ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ارتضی کریم نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ میرا ماننا یہ ہے کہ اردو کے جتنے شعری ونثری اصناف ہیں وہ اپنے ادوار اور اقدار سے جنم لیتی ہیں، جیسا دور اور عہد ہوگا اسی کی مناسبت سے اصناف ادب کا وجود ہوتا رہے گا۔ جیسے داستان نے ناول کی شکل اختیار کرلی، ناول افسانہ کی شکل میں وجود میں آیا اور افسانہ نے افسانچہ کی شکل اختیار کرلی۔
طنطا یونیورسٹی مصر کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر بسنت محمد شکری نے راحت اندوری کی غزل گوئی پر اظہار خیال کرتے کہا کہ راحت اندوری جدید غزل کے ایک بہترین شاعر تھے، ان کی غزل میں زندگی کی قوت، حقائق کا ادراک، تہذیبی روایات اور وطن سے محبت کی عکاسی نظرآتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبہ اردو کے چیئر مین پروفیسر جوہر علی نے کہا اس خوبصورت وبینار کے لیے میں انتظامیہ اور شعبہ اردو نیوکالج کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے شعری ونثری اصناف بہت اہم موضوع ہے،جس کے بارے میں اب تک تشفی بخش جواب نہیں دیا گیا ہے۔
نثر کی تعریف کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولوی نجم الغنی اور بعض دوسرے علماء نے نثر کے بارے میں لکھا ہے کہ نثر ایسا کلام ہے جو غیر موموضوع اور غیر مقفی ہوتا ہے اور اسی کے برعکس شاعری کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ کلام جوموضوع اور مقفی ہوشاعری کہلاتا ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی تعریفیں ناقص اور ادھوری ہیں، کیونکہ نثر کی ایک ایسی بھی قسم ہے جو مقفی اور مسجعی ہوتاہے۔ ملاوجہی کی سب رس سے لیکر انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی اور سرور کی فسانہ عجائب تک ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ اس مقفی ادب نے ہمارے ادب میں کیسے کیسے جلوے دکھائے ہیں اورنثر کے اسلوب میں کتنے رنگ بھر دئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔