سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا...

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

تنویر احمد

آج 9 نومبر ہے، یعنی شاعر مشرق علامہ اقبال کا یومِ پیدائش۔ ایک ایسی شخصیت جس نے اسلامی فکر کو شعری جامہ پہنایا اور مسلمانوں کی پسماندگی، زبوں حالی، کسمپرسی کا رونا روتے ہوئے ان کے اندر انقلاب پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، انھیں صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پھر سے پڑھنے کی ہدایت دی گئی تاکہ حال کی تاریکی کو ماضی کی طرح تابناک بنایا جا سکے۔ لیکن 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے حکم الامت علامہ اقبال کا نام جب بھی لیا جاتا ہے مجھے ان کی نظم’شکوہ‘ کی یاد آ جاتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے علامہ کی زندگی میں طوفان برپا کر دیا تھا۔ اُن پر کفریہ شاعری کرنے سے متعلق اس قدر فتاوے جاری کیے گئے کہ انھیں جواب میں میاں شیر محمد شرقپوریؒ سے فتویٰ حاصل کرنا پڑا۔ دراصل 1911 میں جب ’شکوہ‘ نظم اسلامیہ کالج، لاہور کے ریواز ہاسٹل کے صحن میں لوگوں کے سامنے پیش کی گئی تو اس میں انھوں نے مسلمانوں کی بدحالی سے متعلق خدا سے سوال کر ڈالا اور یہی کچھ لوگوں کو پسند نہ آیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا سے شکوہ پر مبنی اشعار کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس طویل نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا

رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا

ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنیا

پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے

کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

فتاوے تو ہر دور میں صادر ہوتے رہے ہیں اور ان پر تنازعہ بھی ہوتے رہے ہیں۔ سر سید احمد خان اور مولانا نذیر حسین جیسی شخصیتوں پر بھی کفر کا فتویٰ صادر ہوا تھا۔ علامہ اقبال خود پر جاری فتویٰ سے دل برداشتہ ضرور تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر انقلاب پیدا کرنے کے لیے یہ سب برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ برادرانِ مسلم کی زندگی میں انقلاب پیدا ہو۔انھوں نے ’پیام مشرق‘ کے مقدمہ میں واضح لفظوں میں لکھا تھا کہ ’’اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔‘‘

یہ بھی پڑھیں... عبدالقوی دسنوی: آسمانِ ادب کا درخشاں ستارہ

بہر حال، ’شکوہ‘ کی چہار سو پذیرائی کے بعد 1913 میں ’جوابِ شکوہ‘ بھی منظر عام پر آیا جو علامہ اقبال نے موچی دروازہ (لاہور) کے باہر ایک جلسہ میں سامعین کے سامنے پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظم بھی شہرت حاصل کر گئی اور کئی مولوی حضرات جو ’شکوہ‘ کے بعد ناراض ہو گئے تھے ’جوابِ شکوہ‘ سے لاجواب ہو گئے۔ ’شکوہ‘ کے ہر بند کا انھوں نے بہت خوبصورتی سے جواب دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج بھی لوگوں کو ’شکوہ‘ زیادہ پسند ہے۔ خیر، جوابِ شکوہ کا یہ بند دیکھیں:

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

علامہ اقبال سے متعلق ایک بات بہت مشہور ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے حامی تھے اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک چاہتے تھے۔ لیکن یکم جنوری 1935 کو ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام اپنے خط میں اقبال جو کچھ لکھتے ہیں اس سے کچھ اور ہی پتہ چلتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’آج صبح مجھے مسٹر جناح کا خط ملا۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو اور مسلمان مل کر کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا قومی معاہدہ کرانے کی پوری کوشش کریں گے جو مستقبل کے تعاون کی بنیاد ہو۔ اگر یہ موقع ضائع ہو گیا تو موجودہ کش مکش زیادہ شدید ہو جائے گی اور باہمی تعاون ناممکن ہو جائے گا۔‘‘ (’اقبال‘، شمارہ 35، صفحہ 61، جولائی 1988)

اس سے ظاہر ہے وہ ہندو اور مسلمان کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے تھے۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ ایک وقت وہ ہندوستان کے اندر ’مسلم ہندوستان‘ کے حامی تھے۔ کچھ حضرات نے 1930 میں علامہ اقبال کے ذریعہ الٰہ آباد میں دیے گئے خطبہ کی بنیاد پر انھیں پاکستان کا حامی قرار دیا ہے، انھیں چاہیے تھا کہ 1930 کے بعد جو کچھ علامہ اقبال نے لکھا اور کہا اس پر بھی نظر رکھتے۔ علامہ کی حب الوطنی اور وطن پرستی ہی تھی کہ 21 اپریل 1938 میں ان کے انتقال کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو غمزدہ ہو کر لکھتے ہیں’’مجھے یہ سن کر بے حد افسوس ہوا ہے کہ علامہ اقبال وفات پا گئے۔ کچھ عرصہ پیشتر مجھے آپ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت بھی آپ بیمار تھے۔ میں نے دیر تک آپ سے مذاکرہ کیا تھا۔ آپ کے دل میں آزادی اور وطن کی پوری محبت تھی جس سے میں بڑا متاثر ہوا تھا۔ آپ کی موت ہندوستان کے لیے ناقابل تلافی ہے مگر آپ کی نظمیں مدت تک آئندہ نسلوں کے لیے ایک یادگار رہیں گی۔‘‘ (’علامہ اقبال‘ مولف محمد حسین، صفحہ 28، سنہ اشاعت 1939)

تصویر بشکریہ ’ڈان‘
تصویر بشکریہ ’ڈان‘

دراصل علامہ اقبال مغربی تہذیب کے سخت مخالف تھے اور سر سید سے کئی معاملوں میں الگ سوچ رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کو ہندوستان مخالف سمجھ لیا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے ہمیشہ ’مسلم لیگ‘ کے حق میں آواز بلند کی۔ لیکن مسلم لیگ بھی ہندوستان کی آزادی کا ہی دَم بھرتا تھا اور ملک کی تقسیم کا حادثہ تو علامہ اقبال کے انتقال کے تقریباً 11 سال بعد پیش آیا۔ اس سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان حل تلاش کرنے کی کئی بار کوششیں ہوئیں جو بدقسمتی سے ناکام ہو گئیں۔ جہاں تک علامہ اقبال کی مغربی تہذیب سے نفرت کا سوال ہے، تو اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون ’اقبال کا نظریۂ فن‘ میں جو لکھا ہے وہ قابل مطالعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’وہ (اقبال) سر سید کے اس موقف کو تو مانتے تھے کہ وطن عزیز کو ترقی کرنے کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا چاہیے مگر وہ سر سید کی طرح مغرب کو بطور ایک پیکیج قبول کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا یہ موقف تھا کہ مغرب کے علوم دراصل مسلمانوں کی عطا تھے جن سے مغرب والوں نے استفادہ کیا تھا، لہٰذا ان کا حصول ’بازیابی‘ کے تحت شمار ہوگا، خوشہ چینی کے تحت ہرگز نہیں۔ دوسرے وہ مغربی علوم اور مغربی تہذیب میں حد فاصل قائم کرنے کے حق میں تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مغربی تہذیب کی تعمیر میں ’اک صورت خرابی کی‘ مضمر ہے اور شاخ نازک پر بنے ہوئے اس آشیانے کا کچھ پتہ نہیں کہ کب تنکا تنکا ہو کر بکھر جائے۔ لہٰذا اس کی تنقید نامناسب ہے، البتہ مغربی علوم کا حصول ضروری ہے۔‘‘ (’اقبال‘، شمارہ 35، صفحہ 229، جولائی 1988)

علامہ اقبال حالانکہ اسلامی تہذیب و ثقافت سے بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے کبھی داڑھی نہیں رکھی۔ ان کے مخالفین اس وجہ سے کئی بار انھیں نشانہ بھی بناتے تھے۔ لیکن انھوں نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے میں ایک لطیفہ مشہور ہے جو اس طرح ہے:

یہ بھی پڑھیں... جون ایلیا: محبوب سے براہ راست مخاطب ہونے والا شاعر

’’علامہ اقبالؔ تمام عمر اسلام کی شان اور مسلمانوں کے بارے میں شاعری کرتے رہے ۔لیکن اسلامی رواج کے مطابق داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ ایک مولانا اپنے ایک مقدمے میں مشورے کے لیے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ وہ اپنی بہن کو جائیداد کے حصے سے محروم کرنا چاہتے تھے ۔ علامہ کو اس مقدمہ میں کوئی دلچسپی نہ تھی ، لیکن مولانا پھر بھی کسی نہ کسی سلسلے میں مشورہ کے لیے آدھمکتے اور ساتھ ہی اقبال کو نصیحت بھی کرتے رہتے کہ مسلمان ہونے کے ناطے انہیں کیا کیا فرائض انجام دینے چاہئیں ۔ ایک دن بولے کہ آپ عالم دین ہیں اور شریعت کے حامی، لیکن آپ داڑھی نہیں رکھتے جو اسلامی شعار ہے۔ اس پر علامہ اقبال نے کہا کہ میں نے عہد کیا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک معاہدہ کروں۔ یہ بجا ہے کہ مسلمان کے منہ پر داڑھی نہ ہونا غلط ہے ، لیکن اسلام کے مطابق بہن کو وراثت سے محروم کرنا بھی تو شریعت کے خلاف ہے ۔ لائیے ہاتھ میں داڑھی بڑھا لیتا ہوں، آپ اپنی بہن کو وراثت میں حصہ دے دیجئے۔یہ سن کر نہ تو مولانا کا ہاتھ آگے بڑھا، نہ علامہ اقبالؔ کی داڑھی ہی بڑھی۔‘‘

مشرق میں مولانا روم اور مغرب میں گوئٹے سے متاثر ہونے والے اقبال عظیم مفکر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غیرت مند مسلمان تھے۔ آخر وقت میں جب وہ بیماری میں مبتلا تھے تو بھی ان کی غیرت مندی ان کے ساتھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل جب ہندوستان کی کسی ریاست کے وزیر اعظم نے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا اور ایک علیحدہ خط میں لکھا کہ یہ روپیہ آپ کو ریاست کے ایک خاص فنڈ سے بھیجا جا رہا ہے، تو انھوں نے اسے قبول نہ کیا اور چیک واپس کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔