عالمی یومِ اُردو پر خصوصی پیشکش: ذکر اقبال، فکر اقبال... مشتاق صدف
علامہ اقبال کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، وہ اتنا ہی گہرے اور متشابہات سے گھرے نظر آتے ہیں۔ ان کے متن کی تعبیریں بدلتی رہتی ہیں۔ ہر دور میں ایک نئے اقبال سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔
ہر سال 9 نومبر یعنی علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر تزک و احتشام کے ساتھ ’عالمی یوم اردو‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پوری دنیا میں مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج ہم ’عالمی یومِ اردو‘ کے موقع پر علامہ اقبال اور ان کی فکر پر بات کریں گے۔ اس تحریر میں اقبال کے بنیادی افکار کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
علامہ اقبال کو ہم جتنا پڑھتے ہیں، وہ اتنا ہی گہرے اور متشابہات سے گھرے نظر آتے ہیں۔ ان کے متن کی تعبیریں بدلتی رہتی ہیں۔ ہر دور میں ایک نئے اقبال سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کے دو بنیادی حصے ہیں۔ اول متشابہات اور دوئم محکمات۔ متشابہات کے تحت ان کے متن کی جب ہم شروح و توضیح کرتے ہیں تو اس کی تہہ تک پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اور محکمات کے تحت ان کے متن کو ہم آسانی سے براہ راست سمجھ تو لیتے ہیں لیکن اس کی جڑیں بھی کہیں نہ کہیں متشابہات سے مل جاتی ہیں۔ ہمارا اقبال آپ کے اقبال سے جداگانہ ہو سکتا ہے اور آپ کا اقبال ہمارے اقبال سے یگانہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن پوری انسانیت اور پورے عالم کا اقبال ایک ایسا اقبال ہے جس کا نام زبان پر آتے ہی ہمارا نطق بوسہ لیتا ہے۔ یہ عظمت بہت کم شعراء اور شخصیات کو نصیب ہوئی ہے۔
ذکر اقبال کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ اقبال کی سوانح کو وسیع تناظر میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ذکر و فکر کے تعلق سے بہتوں نے گمرہی بھی پھیلائی اور بہتوں نے اس تعلق سے اقبال کو اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ اختلاف اور اعتراف کی گنجائش کسی بھی شخصیت سے باقی رہتی ہے۔ لیکن اقبال کے تعلق سے کچھ گمرہی ایسی پھیلائی گئی جس کو آج تک ہم کاؤنٹر نہیں کر سکے، گویا:
بنائے کفر پڑی کس طرح خدا جانے
تاہم یہاں میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ اقبال ہمیشہ ایک نیا اقبال ہی ثابت ہوا۔ زمانہ گزر گیا مگر اقبال ہر دور میں نئے رنگ و آہنگ میں ہمارے سامنے نمودار ہوتے ہیں۔ اقبال پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ مختلف زاویوں سے انھیں پرکھا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ جب ہم اقبال کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اقبال کو ابھی بہت کم جانتے ہیں۔ ان کے تعلق سے کسی نئی بات کا اظہار کرنا پہلے بھی دشوار تھا اور آج بھی دشوار ہے۔ اقبال کی تفہیم و تعبیر کے لیے ابھی بھی بہت اسپیس ہے۔ کوئی غیر متوقع بات کہنے کے لیے مطالعہ کی وسعت ضروری ہے۔ غالب کے شیدائیوں کی طرح اقبال کے شیدائیوں کو بھی اپنے اپنے اقبال مل گئے۔ سب نے اقبال کے متن کی اپنی اپی تعبیریں نکالی ہیں۔ غالب کی طرح اقبال کی فکر بھی جدلیاتی ہے مگر کسی مخصوص قوم اور مخصوص فکر سے جوڑ کر دیکھنے والوں نے انھیں متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کا بھی جدلیاتی ڈسکورس بہت توانا ہے۔ تجسس اور بوقلمونی انھیں دائمیت بخشتی ہے۔
اقبال نے انسان کی آزادی اور نشاط پر زندگی بھر اصرار کیا۔ ان کی مجتہدانہ فکر مقتدرات کے خلاف تھی۔ آمریت اور تنگ نظری کو انھوں نے ناپسند کیا۔ کسی بھی نوع کی ادعائیت کے خلاف آواز بلند کی۔ فکر و نظر کی آزادی کی پیروی کی۔ تحکمانہ فکر و ملال کے بجائے بے لوث آزادی اور آزادیٔ اظہار کا داعی بن کر رہے۔ اپنی تہذیبی و ثقافتی جڑوں کے ہمیشہ جویا رہے۔ گویا وہ ہمارے فلسفیانہ تہذیبی وجدان کی نمائندگی کرنے والے عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا ادبی وظیفہ انسانیت، روحانیت، تعبیر، تجسس اور وطنیت ہے۔ ان کی ورد میں ہی انھوں نے زندگی گزار دی۔ تکثیری شعریات اور فکری اجتہادات کی ان جیسی دوسری نظیر کہیں نہیں ملتی۔
ہمارے فلسفیوں، خصوصاً سقراط، افلاطون، ارسطو، ڈیکارٹ، کانٹ، ہیگل وغیرہ کے یہاں ایک قدر مشترک بات یہ ہے کہ ان کی تحقیقات میں عقل و فکر کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے ہمارے ایسے بھی فلسفی گزرے ہیں جنھوں نے حقیقت مطلقہ کی تہہ تک رسائی کے لیے عقلی اور منطقی فکر کو زیادہ اہمیت نہیں دی، بلکہ انھوں نے غیر عقلی اور غیر منطقی فکر کو اپنے طریقہ کار کے طور پر برتا اور یہ ذریعہ علم و وجدان رہا۔ اس تعلق سے برگساں کا نام بہت اہم ہے۔ اقبال کا تعلق بھی اسی روایت سے ہے۔ اقبال کا ماننا تھا کہ عقل کسی حد تک ہماری رہ گزر کی رہنمائی کر سکتی ہے، حواس اور عقل دونوں ہی وجدان کو مدد فراہم کرتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کے لیے فقط ’وجدان‘ پر ہی قناعت کر سکتے ہیں۔ یعنی صرف وجدان ہی حقیقت مطلقہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
(بال جبریل)
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
(ضربِ کلیم)
اقبال عقل کو یکسر مسترد نہیں کرتے بلکہ وہ اسے حیات انسانی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کی وہ ایک حد ضرور مقرر کرتے ہیں۔ دراصل عقل کسی وحدت تک رسائی کے لیے فکر کو آمادہ کرتی ہے۔ وہ پوری وحدت کا احساس کرنے سے قاصر ہے۔ کسی وحدت کا مکمل احساس اس کے دائرے سے باہر ہے۔ اسی لیے جب ہمارا وجدان کسی وحدت کا علم حاصل کرتا ہے تو اس سے بہت پہلے عقل کا سفر تمام ہو چکا ہوتا ہے۔ گویا عقل ہمیں فقط ایک رہ گزر کی طرف مائل کرتی ہے۔ لیکن منزل تک ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ دوسرے لفظوں میں عقل راہ کو روشن ضرور کرتی ہے لیکن منزل تک ہمیں نہیں لے جاتی۔
یہ بھی پڑھیں : کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کی خواہش کو پھر لگا جھٹکا
اقبال کا زندگی سے متعلق یہ فلسفہ تھا کہ جب دریا میں کشتیاں چلا کرتی ہیں تو دور جاتے ہوئے پہلے اس کے بادبان ہی نہیں کشتی بھی غائب ہو جاتی ہے۔ یعنی کشتی نظر سے دور تو ہوتی ہے، لیکن موجوں میں ڈوبتی نہیں ہے۔ یہ نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ کشتی ڈوبتی نہیں مگر دکھائی بھی نہیں دیتی ہے۔ انسان کی زندگی بھی ایسی ہے۔ اقبال کی نظر میں:
جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی
ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی
شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا
(نظم ’کنارِ راوی‘)
دراصل اقبال کا ذکر اسی فکر کے تحت ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔
(مضمون نگار تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان میں وزٹنگ پروفیسر ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔