کیا اردو کو ہندی دیوناگری اسکرپٹ قبول کر لینی چاہیے!

اردو جن علاقوں میں زیادہ رائج ہے وہاں اسے سرکاری پشت پناہی ایسی نہیں ملی جیسی کہ امید تھی، تاہم اردو ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی نہ صرف زندہ رہی بلکہ ملک کی ایک اہم زبان رہی اور آئندہ بھی رہے گی

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

ظفر آغا

ابھی حال کا ذکر ہے کہ دہلی کے مشہور انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں اردو اور ہندی زبان کے تعلق سے ایک ٹاک شو منعقد ہوا۔ اس ٹاک شو کے مہمان خصوصی نامی گرامی جاوید اختر تھے، جبکہ اس شو کے اینکر پروفیسر آلوک رائے تھے۔ جاوید اختر محتاج تعارف نہیں۔ ہاں آلوک رائے اس قدر مشہور شخصیت نہیں کہ جن کو سب جانتے ہوں۔ لیکن آلوک رائے بھی خود ایک بڑے عالم ہی نہیں بلکہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جن کا اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے گہرا رشتہ ہے۔ آلوک ہندی اور اردو کے مشہور افسانہ نگار و ناول نگار پریم چند کے پوتے ہیں۔ وہ ایک عرصے سے دہلی میں مقیم ہیں۔ یوں تو ان کا آبائی وطن الٰہ آباد ہے لیکن دہلی میں مختلف یونیورسٹیوں میں انگریزی کے استاد رہنے کے سبب وہ کم و بیش دہلی میں ہی بس گئے۔ لیکن اب بھی ان کا ایک پیر الٰہ آباد ہی میں ہے۔

خیر جاوید اختر اور آلوک کے درمیان اردو-ہندی کے رشتوں کے تعلق سے گفتگو انتہائی دلچسپ اور عالمانہ رہی۔ چونکہ جاوید اختر مہمان خصوصی تھے اس لیے انھوں نے تقریباً ڈھائی گھنٹے کے پروگرام میں سب سے زیادہ وقت لیا۔ جاوید نے گفتگو کا آغاز اس سوال سے کیا کہ زبان کیا ہوتی ہے؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ زبان محض اسکرپٹ نہیں ہوتی اور نہ ہی الفاظ کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔ اگر زبان محض اسکرپٹ ہوتی تو اردو آپ کسی بھی دوسری زبان میں لکھیں وہ اردو ہی رہے گی۔ بقول جاوید اختر زبان کو زبان اس کی گرامر بناتی ہے۔ ان کی یہ دلیل تھی کہ اردو-ہندی دونوں زبانوں کی گرامر کم و بیش ایک ہی ہے اس لیے ان دونوں زبان کی زمین ایک ہی ہے اور وہ ہندوستان ہے جس کی نسبت سے اکثر ان زبانوں کو ہندوستانی کہا جاتا ہے۔


یہ ایک ایسی دلیل ہے جو اردو کے تعلق سے ذرا خطرناک ہے۔ خطرناک اس لیے کہ جہاں ہندوستانی کو اردو سے جوڑ دیا جاتا ہے وہاں پر اردو کی بقا پر خطرے کے بادل منڈلانے لگتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جنگ آزادی کے دوران یہ سوال اٹھا کہ آزاد ہندوستان کی سرکاری زبان کیا ہوگی؟ تو بس دیکھتے دیکھتے ان دونوں زبانوں کے بولنے والوں کے بیچ تلواریں کھنچ گئیں۔ نوبت یہاں تک آئی کہ گاندھی جی کو یہ کہنا پڑا کہ آزاد ہند کی سرکاری زبان ’ہندوستانی‘ ہوگی اور اس کی اسکرپٹ دیوناگری ہوگی۔ پھر مسلم لیگ نے اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ دے کر ہندوستان میں اردو کے لیے مشکلیں کھڑی کر دیں۔ بٹوارے کے بعد جب اردو پاکستان کی زبان ہو گئی اور ہندی کو وہاں سے خروج مل گیا تو ہندی والوں کے ایک طبقے نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اردو پاکستان کی زبان ہے اس لیے ہندوستان میں اس کو ختم کر دینا چاہیے۔

مگر جس کو اللہ رکھے، اس کو کون چکھے! اردو ہندوستان میں آزادی کے بعد بھی نہ صرف زندہ رہی بلکہ ملک کی ایک اہم زبان رہی اور آئندہ بھی رہے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جن علاقوں میں اردو سب سے زیادہ رائج ہے وہاں اردو کو سرکاری پشت پناہی ایسی نہیں ملی جیسی کہ امید تھی۔ مثلاً آج تک اتر پردیش میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں ملا۔ لیکن کیا اردو اتر پردیش سے ختم ہو گئی! ہرگز نہیں، بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں کہ اردو کے مشاعرے نہیں ہوتے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب بلکہ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ یورپ، امریکہ اور عالم عرب میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں۔ وہ تمام ممالک جہاں ہندوستانی جا کر بس گئے، وہاں اب ایک سے بڑھ کر ایک مشاعرے ہو رہے ہیں۔ یعنی اردو یا میری رائے میں کوئی بھی زبان سرکاری مدد سے قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ کسی بھی زبان کو ابدی اس کی اپنی خود کی لسانی قوت بناتی ہے، جو اس کو زندہ رکھتی ہے۔ اردو میں یہ قوت تھی کہ تمام تر سرکاری غفلتوں کے باوجود وہ نہ صرف زندہ رہی بلکہ اس کا نشو و نما بھی ہوتا رہا۔ اردو کے تعلق سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری جس کو اب بالی ووڈ کہا جاتا ہے، اس نے بچا لیا۔ وہ کیسے! اردو زبان میں لکھے گئے فلمی گانے اس قدر مقبول ہونے لگے کہ وہ ہندوستان کے ہر علاقے میں لوگوں کی زبان پر چڑھ گئے۔ اس کا سبب اردو شاعری کی شیرینی اور اس کا شاعرانہ اسٹینڈرڈ تھا اور آج بھی ہے۔ یعنی اردو کو بہت حد تک اس کی شاعری نے جلا بخشی۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ہندی فلموں میں بھی اردو کے گانوں کو ہندی گانے کہا گیا۔

اگر اب یہ کہا جائے کہ اردو کو غیر اردو بولنے والوں میں مقبولیت اس وجہ سے ہوئی کہ وہ ہندی اسکرپٹ میں لکھے جاتے رہے ہیں تو یہ بات محمل ہوگی۔ پھر اسی دلیل کے اعتبار سے یہ کہہ دیا جائے کہ چونکہ اردو، ہندی اسکرپٹ میں کافی پسند کی جاتی ہے اس لیے اب اردو اپنی اسکرپٹ کے بجائے محض ہندی دیوناگری میں لکھی جائے تو یہ بھی سراسر غلط ہوگا۔ لب و لباب یہ ہے کہ ہر زندہ زبان کی اپنی ایک اسکرپٹ ہوتی ہے اور وہی اس کی بنیادی پہچان ہوتی ہے۔ اردو کی اسکرپٹ عربی و فارسی نستعلیق ہے اور اس کی وہی اسکرپٹ برقرار رہنی چاہیے۔ اسی طرح ہندی کی اسکرپٹ سنسکرت پر منحصر دیوناگری ہے اس لیے وہ بھی ویسے ہی قائم و دائم رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو اور ہندی میں ایسے گہرے رشتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتیں۔ اس لیے دونوں زبانوں کو اپنی بنیادی اسکرپٹ میں ہی چلتے رہنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہندی اور اردو دونوں کو گہرا نقصان ہوگا۔ ارے بھائی کیا جڑواں بہنیں ایک دوسرے سے الگ کی جا سکتی ہیں! ہرگز نہیں۔ اس لیے خدارا رحم کیجیے، نہ اردو کو ٹوپی پہنائیے اور نہ ہی ہندی کو تلک لگائیے، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔