وجدان اور مشاہدے کا شاعر شہپر رسول
شہپر رسول کا حقیقی نام چودھری وجیہ الدین ہے۔ وہ 17 اکتوبر1956 میں ضلع جے پی نگر امروہہ کے قصبہ بچھرایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چودھری رئیس الدین وارثی علاقے کی با اثر شخصیت تھے۔
ما بعد جدید شاعری تجربوں کی شاعری ہے۔ اس عہد کے شعرا کے سامنے تجربے کے لئے موضوعات اس لئے بھی متنوع ہیں کہ معاشرے کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہے۔ نئے مسائل اپنے ساتھ نئی لفظیات اور نئی تراکیب لیکر آتے ہیں۔ 1980 کے بعد کی شاعری نئے مسائل سے عبارت ہے۔ شاعروں کی بھیڑ میں ایسے کم ہی شعرا نظر آتے ہیں جنہوں نے نئے مسائل اور مشکلات کا حل ماضی کے تناظر میں مشتقبل کو ذہن میں رکھ کر تلاش کیا۔ ان کم شعرا میں ایک بہت اہم نام شہپر رسول کا ہے۔ شہپر رسول ذات کے ساتھ ساتھ کائنات کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کے یہاں مشاہدہ اور وجدان ملتا ہے۔ چالیس سال کے عرصہ پر محیط ان کی شاعری احساس کی تپش سے عبارت ہے۔ وہ نئے مسائل سے جواں مردی کے ساتھ نبرد آز ما بھی ہیں۔ ان کی شاعری خوگر تسلیم رضا بھی نظر آتی ہے اور صلح و اۡٓشتی کے لئے کوشاں بھی۔ وہ قدروں کے بکھراؤ کا ماتم بھی کرتے ہیں اور صبح فردا کی نوید بھی سناتے ہیں۔ شہپر رسول کی شعری ریاضت کا نتیجہ ہے کہ وہ ما بعد جدید شاعری کی ایک اہم آواز بن چکے ہیں۔ ان کی غزلیں اور نظمیں گیرائی اور گہرائی کی حامل ہیں۔ ان کے شعری کمالات پر بات کرنے سے پہلے اگر ان کے خاندانی پس منظر اور تعلیمی سفر کا جائزہ لے لیا جائے تو ان کی فکری بصیرت کا اندازہ لگانا آسان ہوگا۔
شہپر رسول کا حقیقی نام چودھری وجیہ الدین ہے۔ وہ 17 اکتوبر1956 میں ضلع جے پی نگر امروہہ کے قصبہ بچھرایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چودھری رئیس الدین وارثی علاقے کی با اثر شخصیت تھے۔ خاندان کا ماحول تعلیمی تھا۔ وجیہ الدین کو بھی بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ انہوں نے 1971 میں ہائی اسکول۔1977 میں انٹر میڈیٹ۔1981 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرس کیا اور 1984 میں اے ایم یو سے ہی اردو میں ایم اے کیا۔ علیگڑھ میں اس وقت ترقی پسندی کا زور گھٹ رہا تھا اور جدیدیت رنگ جما رہی تھی۔ شہپر رسول کا اٹھنا بیٹھنا منظور ہاشمی، اسعد بدایونی اور نوری شاہ کے ساتھ زیادہ تھا۔ مزاج کے اعتبار سے شہپر رسول لوگوں کے سامنے جلد کھلنے والی شخصیت کبھی نہیں رہے۔ سنجیدگی اور متانت ان کے مزاج کا جزو لاینفک رہی ہے۔ وجاہت کے اعتبار سے وہ اسم با مسمیٰ ہیں۔ یعنی وجیہ الدین مردانہ وجاہت کا 'پیکر' ہیں۔ انہوں نے تحقیق کے لئے بھی جس موضوع کا انتخاب کیا وہ 'اردو غزل میں پیکر تراشی' ہے۔ شہپر رسول کو پی ایچ ڈی کے لئے اے ایم یو راس نہیں آئی۔ انہوں نے 1993 جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے پی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی کے بعد شہپر رسول بس شاعری اور جامعہ کے ہی ہو کر رہ گئے۔ جہاں تک تدریسی کیرئر کا معاملہ ہے تو شہپر رسول نے جامعہ ملیہ سے1992 اردو کے مہمان لیکچرر کی حیثیت سے آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے شعبہ اردو کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔2015 سے 2019 تک جامعہ ملیہ کے شعبہ اردو کے صدر رہے۔ پروفیسر کی حیثیت سے وہ2021 میں سبکدوش ہوئے۔
شہپر رسول کی ادبی زندگی کا آغاز 1970 میں ہندی سے ہوا۔ انہوں نے۔پہلی کہانی 'وشواس گھات لکھی جو مراد آباد کے ہندی ماہنامہ 'ساتھی' میں شائع ہوئی۔ پہلا مضمون بھی ہندی میں ہی لکھا۔ 'آج کی کہانی کلا اور میرا مت' الہ آباد کے ایک ہندی ہفتہ وار میں شائع ہوا۔ ان کی پہلی غزل دہلی سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ 'الجمیعت' میں1973 میں شائع ہوئی۔ کسی قلم کار کی ادبی حیثیت کا تعین کرنے میں ناقدین ادب کی رائے بہت معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اگر اس پیمانے پر شہپر رسول کی شاعری کو جانچا اور پرکھا جائے تو وہ موجودہ دور کے ایسے شاعر قرار پاتے ہیں جس کا مخصوص اور منفرد لہجہ ہے۔ جو کچلی ہوئی عام روش سے ہٹ کر مشاہدات کی روشنی میں اشعار کہتا ہے۔ شہپر رسول کی شاعری زندگی کا ہاتھ تھام کر چلتی ہے۔ وہ آج کی زندگی سے تشبیہات اور استعارے تراشتی ہے۔ شہپر رسول مشاہدے کے شاعر ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے تجربات کو اپنی زبان اور اپنے خاص اسلوب میں بیان کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ اظہار و بیان بھی اپنا ہے۔ ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کرکے یہ بلا تردد کہا جاسکتا ان کی وہ رومان کے نہیں بلکہ وجدان کے شاعر ہیں۔ ان کے جدید لہجے میں کلاسیکیت بھی ہے اور ترقی پسندی بھی۔
یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنا پر شہپر رسول کو موجودہ تخلیقی منظر نامہ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ''شاعر اور ادبی تنقید نگار کوثر مظہری نے جب ان کی شاعرانہ تجلی کا جلوہ دیکھا تو یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ '' شہپر رسول کی غزلیں اپنے دور کے خوب و زیشت کا اشاریہ تشکیل دینے میں معاون ہیں۔ ان کی آواز اور ان کی فکر اپنی ہے۔ فکر کی پیشکش کا جواز اپنا ہے۔ اکتساب و انجزاب نے انہیں ایک سچا اور مکمل فنکار بنا دیا ہے۔''۔ شہپر رسول کی شعری اساس اور فکرو احساس پر نوجوان قلم کار عادل حیات نے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ 'رنگ رنگ شہپر' عنوان کی اس کتاب میں شہپر رسول کی غزلیہ شاعری اور نظم نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے والے تقریباً ساٹھ مضامین شامل ہیں۔
شہپر رسول کی شاعری میں حسن و عشق کے روایتی افسانے ہیں نہ محبوب کے لب و رخسار کا بیان۔ ان کے یہاں وصل و ہجر کا ذکر تو ہے۔ لمس کی تپش بھی ہے۔ وہ سماجی اور انسانی رشتوں کے تانے بانے اور ان کے نبھانے میں یقین رکھتے۔
رشتوں کا احترام کرے گا تو اس کے بعد
کچھ دن کو اپنے سارے عزیزوں سے کٹ کے دیکھ
شہپر رسول غم ذات سے باہر نکل کر غم کائنات کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
بے گھری کا مجھے شکوہ نہ رہے گا شہپر
جب یہ سوچونگا کہ دنیا میں ہیں بے گھر کتنے
.....
شہپر رسول محنت کشوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔
تجھ کو پیمبر ایسے نظر آئیں گے کسان
قدموں کی دھول میں کبھی چہرے تک اٹ کے دیکھ
شہپر رسول کو اقدار کے انحتاط کا بہت شکوہ ہے۔ وہ اپنے اس درد کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔
اقدار حویلی کو کھنڈر ہونا تھا اک دن
اس کے درو دوار پہ جالا بھی بہت تھا
شہپر رسول انا پسند نہیں ہیں۔ جب جب ان کے سامنے انا آکر کھڑی ہوتی ہے تو وہ یہی کرتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ انا میری اڑاتی مجھ کو
خاک مٹھی میں بھری اور اڑا دی میں نے
واقعہ کربلا نے دنیا کے ہر ادب کو متاثر کیا۔ اردو ادب بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ کربلائی استعاروں کو اردو شعرا نے اپنی فکر اور اپنے اپنے وجدان کے لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ شہپر رسول کے یہاں بھی کربلائی استعارے ملتے ہیں جن کو انہوں نے اپنے خیال کی پر زور ترسیل کے لئے بخوبی برتا۔
انا کا سحر ٹوٹا اور حاجت کا سوال اٹھا
تو شاہ وقت کے ہاتھوں پہ بیعت کا سوال اٹھا۔
.....
دماغ و چشم بھی قلب و نظر بھی تھے ہم پر
مگر ثبات تو شہپر رگ گلو نے دیا
....
مشکیزہ شرافت کا لئے پھرتا ہوں کب سے
کوئی تو کبھی آئے گا پیاسا مرے آگے
.....
یہ معجزہ ہے کہ سینے میں تیر بیٹھ گیا
اگر چہ اس کا نشانہ تھا میرے سر کی طرف
شہپر رسول عظمت رفتہ کے کھو جانے کا غم کچھ اس طرح مناتے ہیں۔
یہ کس نے مجھ کو جگایا ہے خواب شاہی سے
یہ تاج کس نے مرے ذہن سے اتار لیا
شہپر رسول نظمیں بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ لینے والے اس تذبذب کا شکار ہیں کہ شہپر رسول اچھے غزل گو ہیں یا پر اثر نظم گو۔ شہپر رسول کی نظم 'جام تخلیق' کے حوالے سے شاعر اور ناقد مناظر عاشق ہرگانوی کہتے ہیں۔'' شہپر کی بعض نظمیں آشوب ذات کے ادراک سے منور ہیں اور آگہی کے ابلاغ کے لئے تڑپ رکھتی ہیں۔ کسک، احساس کی گرمی اور جذبے کی سلگتی ہوئی آنچ کو ان کی نظموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔
میں نے اک خیال بویا تھا کبھی
جزبوں کا جمال بویا تھا کبھی
رنگوں کی پچکاری ہے چھوٹنے والی، کونپل ہے اک پھوٹنے والی
وقت خوش توفیق بھی توہوتا ہے۔ لمحہ تخلیق بھی تو ہوتا ہے
جمال آنکھوں کو مل رہا ہے۔ خیال خوشبومیں ڈھل رہا ہے۔
خلق کرنے کی بات کیا کہنا
خالق کائنات کیا کہنا
تو نے مجھ سے جو کام لے لیا ہے
میں نے ہاتھوں میں جام لے لیا ہے
اپنی نظم 'بس سانس لیتے ہیں' میں شہپر رسول نے زندگی اور موت کے رمز کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
سانس لیتے ہیں
بس سانس لیتے ہیں
مرگ آغوش ہے اور گھنی چھاؤں ہے
زیست کو ہسار اور کڑی دھوپ ہے
زیست اور موت کی کشمکش
ایک عرفان ہے
نو بہ نو زندگی یوں تو ہر آن ہے
موت آسان ہے
سب تو جیتے نہیں
سب کو جینے سے کیا
سانس لیتے ہیں بس
سانس لیتے رہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ایک مضمون میں شہپر رسول کی شاعری کا کما حقہ جائزہ لیکر ان کے ادبی قد کا تعین امر محال ہے۔ آخر میں ان کے وہ اشعار قارئین کی خدمت میں پیش ہیں جن سے شہپر رسول کی ندرت خیال، زبان و بیان کی چستی، شعوری اساس اور احساس کی آنچ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
میں نے بھی دیکھنے کی حد کردی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا
.....
مجھے بھی لمہ ہجرت نے کر دیا تقسم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
.....
بلا کا شور ہے بستی میں تیرہ بختوں کی
سنا ہے پھر کوئی روشن ضمیر آیا ہے
.....
سورج کو کوئی فرض نہیں ہے یہ دیکھنا
جاتی ہے دھوپ چھت سے اتر کر کہاں تلک
.....
اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناؤ بنا دی میں نے
.....
کوئی کیوں بنتا سر محفل تماشہ صاحبو
سر اٹھا کر بولنا تو بس مری پہچان ہے
.....
اب اور مجھ میں قوت تقسیم جاں نہیں
رشتوں سے میرا نام مرے بھائی کاٹ دے
.....
ہلاک ہو گیا آکر خود اپنے لشکر میں
وہ دشمنوں کی صفوں کو تو چیر آیا تھا
.....
عیال و مال نے روکا ہے دم کو آنکھوں میں
یہ ٹھگ ہٹیں تو ملے راستہ مسافر کو
.....
نہ شاعری کی ہوس ہے نا فکر شہرت و نام
سو ہم نے سوچا بہت ہے مگر کہا کم ہے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔