ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ بچوں کا ادیب غلام حیدر... جمال عباس فہمی
غلام حیدر کی کہانیوں کے مجموعے 'آخری چوری' اور دیگر کہانیوں کو ساہتیہ اکادمی نے 2010 میں ادب اطفال کے حوالے سے انعام کا مستحق گردانا۔
2010 سے پہلے تک اردو کے کسی قلمکار کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے ساہتیہ اکادمی نے اپنے باوقار ایوارڈ کے لئے منتخب نہیں کیا تھا۔ غلام حیدر پہلے اردو قلمکار ہیں جنہیں بچوں کا معیاری ادب تخلیق کرنے کے لئے ساہتیہ اکادمی نے انعام کا مستحق گردانا۔ غلام حیدر ہیں تو معاشیات کے ماہر لیکن ادب اور بطور خاص بچوں کے لئے لکھنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ غلام حیدر کو بچوں کے لئے لکھنے کا اس قدر جنون ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود بچوں کی دلچسپی اور معلومات کے لئے بہت کچھ لکھا ہے بلکہ دوسرے قلمکاروں کو بھی بچوں کے لئے لکھنے کی جانب راغب کیا ہے۔ بچوں کا معیاری ادب تخلیق کرنے کے لئے غلام حیدر نے باقاعدہ 'بچوں کا ادبی ٹرسٹ' نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا۔ اس ادبی ٹرسٹ نے تقریباً اٹھارہ کتابیں شائع کیں۔ خود غلام حیدر بچوں کے لئے دو ناولوں سمیت پندرہ سے زیادہ کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ بچوں کے ادب کے علاوہ غلام حیدر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی تاریخ اور ان کی تعلیمی پیش قدمی پر بھی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ امروہہ کے ایک مجاہد آزادی سید شیر علی کے خطوط پر مبنی ملک کی جدو جہد آزادی پر ان کی ایک کتاب 'رو میں ہے رخش عمر' بھی بہت مقبول ہو چکی ہے۔ انہوں نے یوروپ کی کچھ نادر کہانیوں کے ترجمے بھی اردو میں کئے ہیں اور'اپنی دنیا آپ پیدا کر' کے عنوان سے اپنی سوانح حیات بھی دائرہ تحریر میں لا چکے ہیں۔ غلام حیدر کی قلمی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے سے پہلے ان کے خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر اور ادبی رجحان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔
غلام حیدر کا تعلق ادبی گہوارہ امروہہ کے ایک علمی اور مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد سید غلام احمد کاتب اور خطاط تھے۔ مذہبی شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کی نظم کردہ مناجات کا شہرہ دور دورتک تھا۔ ایک دور تھا کہ جب سید غلام احمد کی نظم کردہ مناجاتوں کا مجموعہ 'پنجتنی پھول' امروہہ کے ہر شیعہ گھر میں لازمی طور سے موجود ہوتا تھا اور ہر شب جمعہ دیگر دینی اذکار کے ساتھ ساتھ 'پنجتنی پھول' میں شامل مناجاتیں پڑھی جاتی تھی۔ غلام حیدر کی پیدائش جامعہ ملیہ کے ریکارڈ کے مطابق یکم جنوری 1937 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے معروف مدرسہ 'منصبیہ' میں ہوئی۔ غلام حیدر جامعہ ملیہ میں 1944 میں اس وقت داخل ہوئے تھے جب اس کے کئی شعبے قرول باغ میں ہی موجود تھے۔ 1951 تک وہ جامعہ ملیہ میں زیر تعلیم رہے۔ بی اے اور ایم اے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا۔ معاشیات میں ایم اے کرنے کے بعد غلام حیدر دہلی آگئے اور منسٹری آف لیبر اینڈ امپلائمنٹ میں ریسرچ افسر کے طور پر کام کرنے لگے۔ طویل بیماری اور قلمی سرگرمیوں کے لئے فرصت نہ ملنے کے سبب غلام حیدر نے 1988 میں روزگار کے تعلق سے ایک بہت بڑا قدم یہ اٹھایا کہ باقاعدہ ریٹائر ہونے سے سات برس قبل ہی انہوں نے رضاکارانہ طور پر ریٹائر منٹ لے لیا۔ حالانکہ اس وقت ان کے بچے زیرتعلیم تھے۔
بچوں کے لئے لکھنے کا سلسلہ غلام حیدر دوران ملازمت ہی شروع کر چکے تھے۔ بچوں کا ادب تخلیق کرنے کا رجحان ان کے اندر جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی جڑ پکڑ چکا تھا۔ بچوں کے ادب کی تجدید، ترقی اور فروغ جامعہ ملیہ کے مقاصد میں شامل رہا ہے۔ غلام حیدر کے نزدیک اصناف ادب میں سب سے زیادہ تعمیری اور تخلیقی صنف بچوں کا ادب ہی ہے۔ رضاکارانہ طور سے سبکدوشی کے وقت غلام حیدر کی پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں۔ وہ 'بچوں کا ادبی ٹرسٹ' 1984 میں قائم کر چکے تھے۔ جس کے تحت سیمناروں، ورکشاپس اور کتابوں کی اشاعت کا کام منظم طریقے سے جاری تھا۔ رضاکارانہ طور سے سبکدوشی کے بعد غلام حیدر مکمل طور سے ادبی ٹرسٹ کے کاموں اور قلمی سرگرمیوں میں لگ گئے۔ اس وقت کی نامور ادبی، سماجی اور سیاسی شخصیات 'بچوں کے ادبی ٹرسٹ' سے منسلک تھیں۔ معروف انگریزی ادیب ملک راج آنند، سابق وزیر اعظم آئی کے گجرال، ادیب اور فلمساز خواجہ احمد عباس، معروف مصنفہ اور ادیبہ صالحہ عابد حسین اور قرۃ العین حیدر، اردو ناقد آل احمد سرور، انٹارکٹیکا کے فاتح ظہور قاسم، ماہر غالبیات مالک رام اور اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر کرنل بشیر حسین زیدی جیسیی شخصیات ٹرسٹ سے وابستہ رہیں۔
غلام حیدر نے ادبی ٹرسٹ کے کام کاج اور کتابوں کی اشاعت کے تعلق سے جو طریقہ کار وضع کیا تھا وہ بھی بڑا منفرد نوعیت کا تھا۔ جس موضوع پر کتابیں تحریر کی جانی ہوتی تھیں اس پر سیمنار اور ورکشاپس منعقد کیے جاتے تھے۔ ان میں قلمکاروں اور دانشوروں کے ساتھ مختلف اسکولوں کے بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ قلمکاروں کو کہانی، مضمون یا ناول کے عنوان کے ساتھ یہ بھی بتانا ہوتا تھا کہ کتاب تصویری ہے یا غیر تصویری۔ انہوں نے کس عمر کے بچوں کو ذہن میں رکھ کر متن و مواد تیار کیا ہے۔ ورکشاپس میں بچوں سے ان کی رائے اور مشورے لئے جاتے تھے۔ قلمکار کو حتمی مسودوں میں بچوں کی رائے، مشوروں، تبصرے اور تنقید کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا تھا۔ حتمی مسودے کو ماہرین کی کمیٹی منظوری دیتی تھی تب کہیں جا کر کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آتی تھی۔ غلام حیدر نے بچوں کے لئے جو کچھ بھی تحریر کیا یا ادبی ٹرسٹ کی جانب سے جو کچھ شائع کیا گیا اس میں اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جاتا تھا کہ تحقیقی اور معلوماتی مواد دلچسپ اور آسان زبان میں کہانی کے روپ میں ہو۔غلام حیدر نے لکھتے وقت یہ خاص خیال رکھا کہ بچوں کے ذہنوں میں منفی تصور پیدا نہ ہوں۔ ان کی معلومات میں اضافہ ہو۔ بچوں میں حقیقت پسندی کا رجحان پیدا ہو۔ ان کے اندر اخلاقی اقدار کی نشو نما ہو اور تحقیق و تجسس کا مادہ پیدا ہو۔ ان کا طرز نگارش نہایت سادہ مگر دلنشیں ہوتا۔
انعام یافتہ کہانیوں کے مجموعے 'آخری چوری' کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے اور غلام حیدر کے اسلوب بیان اور طرز تحریر کا اندازہ لگائیے۔
''گرمیوں کی راتیں تو ویسے بھی چھوٹی ہوتی ہیں۔ میں نے لگ بھگ آدھی رات کے بعد اپنا کام شروع کیا۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے میں ایک خوبصورت سی نقب لگا کر میں کوٹھری میں پہنچا۔ ماچس جلا کر دیکھا تو طاق میں سرسوں کا چراغ بھی دکھائی دے گیا۔ مگر روشنی ہوتے ہی میرا سر چکرا گیا، اس کوٹھری کو تو پورا گودام کہا جا سکتا تھا۔ ان گنت ٹرنک۔ چھوٹے بڑے بکس، بقچے، کسوٹیں، پوٹلیاں، گٹھریاں، نہ جانے کاہے کاہے سے بھری بوریاں، تھیلے۔ ہر طرف ایک کے اوپر ایک بڑے قرینے سے چنے ہوئے تھے۔ اب بھائی ذرا سوچو اتنی بہت سی چیزوں میں زیادہ سے زیادہ تین چارگھنٹوں میں سخت گرمی میں اپنے کام کی چیز ڈھونڈنا کتنا مشکل کام تھا۔''
'خط کی کہانی' کتاب کا ایک اقتباس پیش ہے جو بچوں کے لئے معلوماتی ہے۔
''خط لکھنے کے لئے لگ بھگ کاغذ جیسی ہی دو تین چیزیں اور بھی کچھ جگہوں پر استعمال کی گئیں۔ خیر وہ اتنی ہلکی تو نہ تھیں جتنا آج کاغذ ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانا پتھر کی سلوں کے اٹھائے اٹھائے پھرنے کے مقابلے میں ضرور آسان تھا۔ ایک تو تھی جھلی۔ یہی جھلی جو جانوروں کے گوشت پر چڑھی ہوتی ہے۔ پہلے گرم پانی میں ابال کر اس کی چکنائی صاف کی۔ اس کے بعد اسے چکنے پتھر سے خوب گھسا۔ لیجئے صاحب کئی ہزار سال پہلے کا کاغذ تیار ہو گیا۔ کم سے کم خط لیجانے والے کو تو آسانی ہو گئی۔ اگر تمہارا جی چاہے تو کسی بڑے شہر کے عجائب گھر چلے جاؤ، وہاں تمہیں بہت پرانی کتابیں جھلی پر لکھی ہوئی نظر آ جائیں گی۔ ہندستان میں بہت پرانے زمانے میں بھوج پتر پر خط لکھے جاتے تھے۔ لکڑی کی چھال اور خود لکڑی کی تختیوں کو چکنا کرکے ان پر ہمارے بزرگ خط لکھا کرتے تھے۔''
غلام حیدر کی کہانیوں کے مجموعے 'آخری چوری' اور دیگر کہانیوں کو ساہتیہ اکادمی نے 2010 ادب اطفال کے حوالے سے انعام کا مستحق گردانا۔ اس سے پہلے کسی اردو قلمکار کو ادب اطفال کے تعلق سے ساہتیہ اکادمی کا انعام حاصل کرنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا تھا۔ بچوں کے لئے لکھے گئے ان کے ناول' پگ ڈنڈی۔ جنگل سے کھیت تک' کو ناقدوں نے ادب اطفال میں سنگ میل قرار دیا ہے۔ 'پیسے کی کہانی'،'خط کی کہانی'، 'بینک کی کہانی'، 'اخبار کی کہانی'، 'آزادی کی کہانی۔۔ انگریزوں اور اخباروں کی زبانی'۔'غار سے جھونپڑی تک' پیڑ پیڑ میرا دانا دے' جیسی معلوماتی کتابیں بہت مقبول ہوئیں۔ اپنی درسگاہوں کو کم لوگ یاد رکھتے ہیں لیکن غلام حیدر نے 'جامعہ کی کہانی جامعہ والوں کی زبانی' اور 'میری دو درسگاہیں' لکھ کر جامعہ ملیہ اور اے ایم یو کو اپنا قلمی خراج عقیت پیش کیا ہے۔
غلام حیدر نے ملک گیر سطح پر ایک سروے بھی کیا اور پتہ لگایا کہ بچوں کے ادب پر کہاں، کیا اور کتنا لکھا گیا ہے۔ سروے کے نتائج کافی مایوس کن پائے گئے۔ 85 برس کی عمر میں مختلف بیماریوں میں مبتلا غلام حیدر کا تخلیقی جذبہ اب بھی جوان ہے اور قلمی سفر جاری ہے۔۔ وہ کئی تخلیقی پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔غلام حیدر بچوں کے ادب کے حوالے سے نئے قلمکاروں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔