نسیم امروہوی جدید مرثیہ کے بانی

نسیم امروہوی پر پانچ چھ برس تک مشق سخن کا ایسا جنون طاری رہا کہ اس کے نتیجے میں محلے بھر میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ نسیم پاگل ہو گیا ہے!

<div class="paragraphs"><p>نسیم امروہوی جدید مرثیہ کے بانی</p></div>

نسیم امروہوی جدید مرثیہ کے بانی

user

جمال عباس فہمی

یہ حقیقت ہے کہ میر انیس اور مرزا دبیر نے مرثیہ کو جس عروج و کمال پر پہونچا دیا تھا اس میں مزید کمال کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی لیکن یہ نسیم کی فکر کی جدت تھی کہ انہوں نے مرثیہ کے تمام تر فنی پہلؤوں کے ساتھ مرثیہ گوئی میں کچھ منفرد پہلو پیدا کئے۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک سے بھی بارہ تیرہ برس پہلے مرثیہ کو ترقی پسندانہ فکر سے مزین کر دیا تھا۔

نسیم امروہوی کی مرثیہ پر تفصیلی گفتگو کرنے سے قبل ان کے خاندانی پس منظر، تعلیمی سفر اور ان کی زندگی کے نشیب و فراز پر ایک نظر ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نسیم امروہوی امروہہ کے ایک ایسے ادبی اور علمی گھرانے کے فرد ہیں جس کے مرثیہ نگاروں کا شہرہ چہار دانگ عالم میں ہے۔ مرثیہ نگاروں کے خانوادے میں24 اگست1908 کو ایک فرزند کی ولادت ہوئی۔ دادا شمیم امروہوی نے اپنے اس پوتے کا نام سید قائم رضا رکھا۔ یہی قائم رضا نسیم امروہوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ نسیم امروہوی موروثی مرثیہ نگار ہیں۔ ان کے والد برجیس حسین برجیس، دادا فرذدق ہند شمیم امروہوی، دادا شمیم امروہوی کے والد حیدر حسین یکتا اور شمیم امروہوی کے دادا یعنی یکتا کے والد خادم حسین ولی بھی اپنے دور کے مرثیہ گو شاعر تھے۔ نسیم امروہوی کے ایک فرزند قسیم امروہوی مرحوم بھی مرثیہ نگار تھے۔

 قائم رضا نسیم محض چار برس کی عمر میں والد برجیس حسین کے شفیق سائے سے محروم ہو گئے۔ نسیم کو دادا کی زندگی میں باپ کی وفات سے وراثت سے محرومی کا صدمہ بھی ملا۔ دادا شمیم امروہوی رامپور کے نواب حامد علی خاں کے دربار سے وابستہ تھے۔ دربار کی جانب سے انہیں 'فرذدق ہند' کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ دادا شمیم امروہوی کے شفیق سائے میں نسیم ابھی پروان بھی نہ چڑھے تھے کہ ان کا بھی 1913 میں انتقال ہو گیا۔


بچپن میں قائم رضا نے عربی، فارسی اور ریاضی کی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی۔ چھ برس کی عمر میں قرآن ختم کر لیا تھا۔قابل اساتذہ کے زیر سایہ نسیم 12 برس کی عمر میں منشی کا امتحان پاس کر چکے تھے۔ میرٹھ کے منصبیہ کالج سے انہوں نے مولوی اور عالم کے امتحانات پاس کئے۔ الہ آباد بورڈ سے انہوں نے عربی علوم میں مولوی کی سند حاصل کی۔ الہ آباد بورڈ سے ہی انہوں نے منشی، عالم، فاضل ادب، کامل اور فاضل فقہ اور نور الا فاضل درس نظامی کی سندیں حاصل کیں۔ تین برس کی عمر میں منبر پر بٹھا دئے گئے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے والد برجیس حسین کی نظم کردہ رباعی پیش کی تھی۔

 اولاد شمیم سخن آرا ہوں میں

منبر ہے اک آسمان تارا ہوں میں

کیوں بزم سخن میں اب چمک کر نہ پڑھوں

 برجیس کی قسمت کا ستارا ہوں میں

گیارہ برس کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ محلے میں ہونے والی منقبت کی محفل کے لئے فی البدیہ دو شعر کہے۔ یہ ان کی پہلی شعری تخلیق تھی۔

ہمارے محمد تمہارے محمد

سبھی امتی کے سہارے محمد

سحر اٹھ کے ہم جن کا پڑھتے ہیں کلمہ

وہ ہیں آمنہ کے دلارے محمد

ان کے کلام پر سب سے پہلی اصلاح ان کی والدہ نے کی۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں انہوں نے سبھی کی جگہ ہر اک کا لفظ تجویز کیا۔

 تیرہ چودہ برس کی عمر میں قائم رضا شہر کی محفلوں میں باقاعدہ کلام پیش کرنے لگے تھے۔17 برس کی عمر کو پہونچتے پہونچتے وہ شہر کے ابھرتے ہوئے شعرا کے کلام کی اصلاح کرنے لگے تھے۔1923 میں انہوں نے باقاعدہ مرثیے کہنا شروع کر دئے تھے۔ وہ قائم کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ایک مجلس میں انہوں نے اپنا نظم کردہ پہلا مرثیہ پڑھا۔ مجلس کے اختتام پر شمیم امروہوی کے شاگرد نواب باقر علی خاں نسیم نے قائم رضا قائم کے حق میں اپنے تخلص نسیم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ اس طرح قائم رضا قائم، قائم رضا نسیم ہو گئے۔


جب نسیم نے مرثیہ کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا وہ ، وہ دور تھا کہ جب تمام تر فنی لوازمات کے ساتھ مراثی نظم تو کئے جا رہے تھے لیکن مرثیوں کے حوالے سے سامعین میں ذوق و شوق ختم ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تحت اللفظ مرثیہ خوانی کی مجلسوں میں سامعین کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی تھی۔ نسیم نے سماعتوں کے حوالے سے مرثیہ کی ناقدری کو شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ مرثیوں میں وہ سب کچھ موجود ہے جو اس کی مرثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے لیکن وہ عوام کے معاشی اور روزمرہ کے مسائل سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ عقائد کا احیا اور ان کو پختہ کرنے والی آیات اور احادیث کا بھی مرثیوں میں فقدان ہے۔

1923 میں نسیم امروہوی نے قوم کی معاشی زبوں حالی اور اہل بیت کی سیرت کے حوالے سے اس سے نجات کے طریقے تجویز کرنے والا ایک مرثیہ نظم کیا۔ اس مرثیہ نے مروجہ مراثی کے مضامین میں تبدیلی کے عہد کا آغاز کیا۔

تجھ میں اے باغ وطن اب گل خوش رنگ نہیں

 کس روش پر گل و بلبل میں یہاں جنگ نہیں

 تن پہ کس غنچے کے ہستی کی قبا تنگ نہیں

 طنطنے ہیں وہی ماضی کے وہ اورنگ نہیں

آنکھ با وصف تکدر جدھر اٹھ جاتی ہے

فقر کی شاہی بے ملک نظر آتی ہے۔

۔۔۔

ہائے کیسی یہ ہوا صحن گلستاں میں چلی

 کوئی بے داغ شگوفہ ہے نہ گل ہے نہ کلی

 دھوپ بھی سرد مزاجی کے ہے سانچے میں ڈھلی

 ہر طرف بے عملی بے عملی بے عملی

تھا جو سرمایہ اسلاف وہ سب کام آیا

آفتاب آج ریاست کا لب بام آیا

۔۔۔۔

پختہ کاروں کے سنے کوئی خیالات یہ خام

 دستکاری کو تجارت کو سمجھتے ہیں حرام

کوئی پوچھے جو سبب کہتے ہیں یہ برسرعام

 شان سادات کے شایاں نہیں یہ ادنیٰ کام

جیتے جی اب تو یہ آثار ہیں سب مرنے کے

 فاقے کر لیں گے مگر کام نہیں کرنے کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دور کیوں جاؤ چلو احمد مختار کے گھر

 آپ باشی کا کیا کام علی نے دن بھر

 جو جو اجرت میں ملے گھر میں وہ لائے حیدر

 فاطمہ نے انہیں کس شوق سے پیسا اٹھ کر

 حیف شرم آئے ہمیں محنت و مزدوری سے

 آسیہ فخر کریں جس پہ وہ چکی پیسے


عنوان کے تحت مرثیہ نظم کرنے کی روایت بھی نسیم امروہوی نے شروع کی۔نسیم نے ابتدا سےہی یہ التزام رکھا کہ عنوان قائم کرکے اس کے تحت مرثیہ نظم کیا جائے۔ کئی مرثیے انہوں نے دوسروں کے تجویز کردہ عنوانات پر نظم کئے۔ان میں 'سیاست علویہ' اور 'فضائل علی قرآن و حدیث کی روشنی میں' کے عنوانات شامل ہیں، جن پر نسیم امروہوی نے معرکتہ الآرا مراثی نظم کئے۔'فضائل علی قرآن و حدیث کی روشنی میں' کے زیر عنوان مرثیہ میں نسیم امروہوی نے قرآن کی 21 آیتوں اور 114 حدیثوں سے استفادہ کیا۔

دین اسلام کے اک عاشق جانباز علی

طائر علم و عمل کا پر پرواز علی

 راز احمد کا جو مصحف ہے تو ہم راز علی

ایک اعجاز وہ ہے دوسرا اعجاز علی

 فرق اتنا سا ہے قرآن میں اور حیدر میں

 وہ پیمبر کے گھر اترا یہ خدا کے گھر میں

نسیم نے مرثیوں کے ذریعے امام حسین کے فرش عزا کی اہمیت اور افادیت اجاگر کی۔انہوں نے امام حسین کے غم میں برپا ہونےالی مجلسوں کو درسگاہ سے تعبیر کیا۔

بپا جو کرتے ہو تم مجلسیں عزا کے لئے

 اشاعت غم مظلوم کربلا کے لئے

 نہ صرف بہر بکا ہیں نہ واہ وا کے لئے

 یہ مدرسہ بھی تو ہیں دین مصطفیٰ کے لئے

تمہاری بزم ہدایت مآب ہے گویا

 حسین علم و عمل کی کتاب ہے گویا


نسیم امروہوی کومیر انیس اور مرزا دبیر پر ایک اورپہلو سے فضیلت اور فوقیت حاصل ہے اور وہ ہےاختلافی اور ضعیف روایات نظم کرنے سے پرہیز۔ کربلا میں جناب قاسم ابن حسن کے عقد کی روایت اختلافی ہے تو نسیم امروہوی نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اس کو نظم کرنے سے اجتباب کیا۔ فرماتے ہیں۔

 سنئے وفائے قاسم ذی جاہ و گلبدن

 کرنا نہیں ہے ذکر عروسی دم سخن

اس رنگ میں نیا ہے یہ افسانہ کہن

جس میں ہوں دو فریق وہ زیبا نہیں سخن

 اہل نظر کو شک ہے عروسی کے باب میں

ہم کیوں لکھیں ضعیف روایت شباب میں

نسیم نے امروہوی اپنی زندگی میں227 مراثی نظم کئے اور کسی بھی مرثیہ میں کسی ضعیف اور اختلافی روایت کو نظم نہیں کیا۔

 نسیم امروہوی کا مشق سخن کا طریقہ بڑا عجیب و غریب تھا۔ جو آج کل کے شعرا کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ میر انیس کا کوئی مرثیہ لے کر بیٹھ جاتے اور اس کو کئی کئی بار غور سے پڑھتے۔ جو بات سمجھ میں نہیں آتی تھی اس کو انیس کے کلام کے ماہروں سے معلوم کرتے تھے۔ اس کے بعد اسی موضوع پر خود مرثیہ لکھتے۔ کئی کئی بار رد و بدل کرتے کاٹ پیٹ کرتے۔ اور پھر باذوق اور سخن فہم دوستوں کو سناتے تھے۔ اس کے بعد ہر مسودے کو پھاڑ دیا کرتے تھے۔ پھر اسی موضوع پر دوسری بحر میں مرثیہ نظم کرتے تھے اور یہی عمل دوہراتے تھے۔ ہر برس تعزیوں کے ساتھ تلف شدہ مسودات دفن کر دیا کرتے تھے۔ مشق سخن کا یہ جنون ان کے اوپر پانچ چھ برس تک جاری رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محلے بھر میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ نسیم پاگل ہو گیا ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔