مصطفی زیدی، جس کی شاعرانہ عظمت پُراسرار موت کی داستانوں میں دب گی
مصطفٰی زیدی نے کم عمری سے ہی شاعری شروع کردی تھی۔ پہلے وہ تیغ الہ آبادی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''زنجیریں'' کے عنوان سے الہ آباد میں 1949 میں شائع ہوا
جو محض 40 برس کی عمر میں دنیا چھوڑ گیا۔ جس کی موت کی وجوہات پر پڑے پردے اب تک نہیں ہٹائے جا سکے، جس نے اپنا پہلا شعری مجموعہ 19 برس کی عمر میں شائع کر دیا تھا۔ جو ترقی پپسند تحریک کا نمائندہ قلمکار تھا۔ جوش، فراق اور فیض نے جس کی شاعرانہ عظمت کا لوہا مانا۔ اس شخصیت کا نام ہے سیّد مصطفیٰ حسین زیدی۔ مصطفیٰ زیدی کی پر اسرار موت کے دھندھلکے میں ان کی شاعرانہ قدر و منزلت کہیں کھو گئی۔ جو مقام اور مرتبہ انہیں ملنا چاہئے تھا۔ ان کے معاشقوں کے قصوں اور موت کے اسباب پر بحث و مباحث کے چکر میں اس کا تعین نہیں ہوسکا۔
مصطفیٰ زیدی کی شاعری اور اس کے محاسن پر بات تو ہوتی ہے لیکن اس کا رخ ان کی ذاتی زندگی اور پر اسرار موت کی طرف مڑ جاتا ہے۔ مصطفیٰ زیدی کی شعر مزاجی اور زود گوئی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے طبعی زندگی تو محض 40 برس پائی لیکن اس میں انہوں نے بھرپور شاعری کی، ان کی زندگی میں پانچ شعری مجموعات شائع ہوئے ایک ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ ان کی کلیات بھی بعد از مرگ ہی مرتب ہوئی۔ ایک امریکی اسکالر نے زیدی کی زندگی اور شاعری پر تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔
مصطفی زیدی کون تھے ان کی فکری اساس کیا تھی۔ کس پایہ کی ان کی شعر گوئی تھی۔ ان کا خاندانی پس منظر کیا تھا۔ یہ جاننا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اتر پردیش کے تاریخی شہر الہ آباد کی ایک با اثر اور خاندانی شخصیت سید لخت حسین زیدی کے یہاں 10اکتوبر 1930 کو جس بچے کی ولادت ہوئی اس کا نام سیّد مصطفیٰ حسین زیدی رکھا گیا۔ والد سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بچپن سے ہی بہت ذہین تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے کیا۔
مصطفٰی زیدی نے کم عمری سے ہی شاعری شروع کردی تھی۔ پہلے وہ تیغ الہ آبادی کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''زنجیریں'' کے عنوان سے الہ آباد میں 1949 میں شائع ہوا اس وقت ان کی عمر محض19 برس تھی۔ 'زنجیریں' بعد میں 'روشنی' کے عنوان سے پاکستان سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کے تمام کلام تیغ الہ آبادی کے زیر تخلص ہے۔ ان کی شعری صلاحیت، فکر اور تخیل کی پرواز دیکھ کر فراق گورکھپوری کو مصطفی زیدی کی شکل میں ایک بڑا شاعر نظر آگیا تھا۔ فراق گورکھپوری کا اندازہ صد فیصد صحیح ثابت ہوا لیکن یہ بڑا شاعر کسی نہ کسی حوالے سے تنازعات میں گھرا رہا۔
مصطفٰی زیدی 1950 کے اوائل میں ہجرت کرکے کراچی چلے گئے تھے۔ زیدی نے اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی بھی ہڑھائی اور پشاور یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ پشاور یونیورسٹی سے ہٹائے جانے کے بعد انہوں نے Civil Service of Pakistan (سی ایس پی) کا امتحان امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ سی ایس پی اب Pakistan Administrative Service ہے۔ افسر شاہ کے طور پر مصطفی زیدی نے متعدد اعلیٰ عہدوں پر کام کیا۔ وہ کراچی کے اسسٹنٹ کمشنر بھی رہے۔ انہوں نے آسٹرین نژاد خاتون ویرا سے شادی کی تھی۔ بیٹے اور بیٹی کی شکل میں ان کی دو اولادیں ہیں۔ مصطفی زیدی ایک شادی شدہ افغان نژاد خاتون شہناز گل کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ شہناز ان کی شاعری پر فریفتہ تھی۔ ان کی کئی نظمیں شہناز کے نام ہیں۔ انہوں نے اپنے کئی اشعار میں شہناز گل سے اپنی بے انتہا قربت کا اقرار کیا ہے۔ ایک شعر میں کہتے ہیں۔۔۔
فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اس معاشقے کی وجہ سے مصطفی زیدی کی ازدواجی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔ مصطفی زیدی کو اس معاشقے کے سبب رسوائی کے دوران ایک زبردست جھٹکا ملازمت سے برطرفی کی صورت میں لگا۔ ان کے افسر شاہی کے کیرئر کا خاتمہ بہت افسوسناک طریقے سے ہوا۔ اس وقت کے صدر یحییٰ خاں نے دو دسمبر 1969 کو جن 303 افسر شاہوں کو برطرف کیا تھا ان میں مصطفی زیدی بھی تھے۔ سال 1970 مصطفی زیدی کی زندگی میں بڑا طوفان لے کر آیا۔ اسی سال میں وہ ملازمت سے مستقل طور سے ہٹا دیئے گئے اور اسی برس کی 12 اکتوبر کو پراسرار طریقے سے ان کی موت ہوگئی۔ یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ اپنی سالگرہ کے دوسرے روز ہی وہ دنیا سے رخصت ہوئے، جن حالات میں ان کی موت ہوئی اس سے قتل یا خود کشی کے نتیجے برآمد کئے گئے۔ ان کے ایک دوست کے بنگلے کے ایک کمرے سے ان کی لاش ملی، naphthalene کی گولیاں ان کے بستر پر ملیں۔ ان کی ناک اور منھ پر خون جما ہوا تھا۔ کمرے میں ان کی اہلیہ کا ایک ایروگرام بھی تھا جسے کھولا نہیں گیا تھا۔ دوسرے کمرے میں شہناز گل بیہوش ملیں۔ نامور شاعر اور سابق بیورو کریٹ کی موت نے برصغیر ہند و پاک میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ زیدی کے بھائی کی شکایت پر شہناز گل کے خلاف کیس درج ہوا۔ جانچ پڑتال کے لئے زیدی کی میت کو قبر سے بھی نکالا گیا۔ دوبارہ پوسٹ مارٹم ہوا۔ زیدی کی موت کے اسباب کا پتہ لگانے کے لئے کمیشن بھی بنایا گیا تھا۔ شہناز گل کو گرفتار بھی کیا گیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ آخر کار عدالت نے فیصلہ دیا کہ زیدی کو شہناز گل نے قتل نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خود کشی کی تھی۔
ان کی موت کی گتھی آج تک الجھی ہوئی ہے۔ ان کا یہ شعر اس پر صادق آتا ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
زیدی کی نا گہانی اور پر اسرار موت نے ہند و پاک کے قلمکاروں کو شدید صدمے سے دو چار کیا۔ جوش ملیح آبادی نے بڑے پردرد انداز میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
تونے مرے لبوں کو غم کی نے دی
مرد آزاد کو بنایا قیدی
اف ڈھونڈ رہی ہیں تجھ کو آنکھیں میری
زیدی زیدی کہاں ہے بیٹا زیدی
جہاں تک مصطفی زیدی کی شاعری کا معاملہ ہے وہ جذبات اور انسانی احساسات کے نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا غالب عنصر رومانیت ہے۔ زبان اور بیان پر وہ زبردست قدرت رکھتے تھے۔ زیدی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں غضب کی روانی ہے۔ 'ماہیت' کے عنوان سے ان کی یہ مختصر سی نظم زبان و بیان پر ان کی گرفت کا نمونہ ہے۔
میں سوچتا تھا کہ بڑھتے ہوئے اندھیروں میں
افق کی موج پہ ابھرا ہوا ہلال ہو تم
تصورات میں تم نے کنول جلائے ہیں
وفا کا روپ ہو احساس کا جمال ہو تم
کسی کا خواب میں نکھرا ہوا تبسم ہو
کسی کا پیار سے آیا ہوا خیال ہو تم
مگر یہ آج زمانے نے کر دیا ثابت
معاشیات کا سیدھا سا اک سوال ہو تم
مصطفی زیدی کے بعض اشعار تو اتنے مقبول ہوئے کہ زباں زد خاص وعام ہو گئے۔
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
.....
''زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے''
وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے
.....
تیرا وعدہ تھا کہ اس ماہ ضرور آئے گی
اب تو ہر روز گزرتا ہے مہینے کی طرح
.....
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
.....
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی
.....
اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
.....
دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیے
وہ مے کدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا
.....
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
.....
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں
.....
وہی اقرار میں ان کار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
.....
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
زیدی' روشنی' 'شہر آذر'، 'موج مری صدف صدف' 'گریبان'، 'قباے ساز' اور 'کوہ ندا' کی شکل میں بیش قیمت ادبی سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ 'کلیات مصطفی' کے عنوان سے ان کی کلیات بھی ترتیب دی جا چکی ہے۔
مصطفی زیدی کی شاعرانہ قدر و منزلت کے اعتراف کا جہاں تک سوال ہے۔ اس معاملے میں بھی وہ بد قسمت رہے۔ انہیں بعد از مرگ 'تمغہ قائد اعظم ' سے نوازہ گیا۔ شکاگو یونیورسٹی کی اسکالر Laurel Steele نے ان کی شاعری اور شخصیت پر تحققی مقالہ لکھا ہے۔ لیکن آج تک ہند و پاک کے کسی اردو اسکالر کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ان کی شاعری کے حوالے اور ادبی خدمات پر کوئی مقالہ لکھ دیتا۔ ناقدین ادب نے بھی انہیں نظر انداز کیا۔ ترقی پسند تحریک کا نمائندہ اور ایک سلیس اور شگفتہ لہجے کا شاعر ہونے کے ناطے اہل اردو پر ان کا حق ہے کہ ان کی نجی زندگی کی پرتیں ادھیڑنے کے بجائے ان کی شعری صلاحیتوں، ان کی زود گوئی، ان کی پرواز تخیل اور فکری اساس کے گوشے تلاشیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔