’مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ‘... فیض احمد فیضؔ کی برسی پر خصوصی پیش کش
پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض احمد فیضؔ کچھ عرصہ دہلی میں بھی رہے۔ انہوں نے امرتسر کالج میں بھی پڑھایا اور پھر واپس چلے گئے۔
'جتنا مشکل ہے فیض دِکھنا بھی، اتنا مشکل ہے فیض ہونا بھی۔' برصغیر ہند اور پاک میں شاعری کا ذکر ہو اور فیض احمد فیضؔ کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ نظم نے اب تک کبیر سے لے کر امیر خسرو تک کئی رنگ دیکھے ہیں لیکن غزل کی روح کو سمجھنے اور اس کی آبیاری کرنے والوں میں فیض احمد فیضؔ کا نام بڑے ادب و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کا انتقال آج ہی کے دن 1984 میں لاہور پاکستان میں ہوا تھا۔
پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض احمد فیضؔ کچھ عرصہ دہلی میں بھی رہے۔ انہوں نے امرتسر کالج میں بھی پڑھایا اور پھر واپس چلے گئے۔ وہ سر گنگا رام والے لاہور (پاکستان) کے بعد میں ہوئے، سب سے پہلے وہ دہلی اور امرتسر (بھارت) کے رہے۔ یہاں تک کہ وہ 1941 میں ایک روسی خاتون ایلس فیض سے شادی کرنے کے بعد بھی کچھ عرصہ دہلی میں ہی رہے۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ملکوں کی سرحدوں کی سچائی کو تسلیم تو کرتے تھے لیکن ان کے اپنے ذہن کی کوئی سرحد نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لبنان سے لے کر فلسطین تک کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ دیکھتے تو پگھل جاتے تھے۔ اکثر ہندوستان کا دورہ کرتے تو ان کی زبان سے ہندوستان مخالف اشعار کبھی نہیں نکلے۔
اس لحاظ سے فیض کو یاد کرنا 'گلشن کا کاروبار' چلانے کی کوشش کر کرنا ہے۔ باد نوبہار کا پیدل چلنے کا منظر قابل دید ہے۔ جہت کار، سپاہی، پروفیسر، ایڈیٹر اور نہ جانے کتنے ہی کرداروں سے فیض کی پہچان ہے اور وہ آج بھی کتنے ہی شعبوں کو فیض یاب کر رہے ہیں۔ وہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کے تھے لیکن ان کی شخصیت اور شاعری کا ڈھانچہ بہت سی خوبیوں پر کھڑا ہے۔
پہلی خوبی غم دوراں کو محسوس کرنا یا معاشرے کے دکھ کو سمجھنا اور دوسری خوبی غم جاناں یعنی محبوب کے دکھ کو سمجھنا۔ اس کے لیے محبت بھی انقلاب تھی اور انقلاب بھی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں اپنی کلاسیکی ساخت میں بھرپور رنگ رکھتی ہیں۔ غزل کا احترام برقرار رکھنے والوں میں فیض کا نام سرفہرست رہے گا۔ ان کا یہ شعر جو بہت زیادہ چرچا میں نہیں آیا بہت کچھ کہتا ہے:
غم جہاں ہو غم یار ہو کہ تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
ان کی کشادہ ہونے کی یہ صلاحیت ہی ہے جو ادب کو فیض یاب کرتی ہے۔ دنیا کا غم ہو، محبوب کا غم ہو یا کوئی ظلم و ستم، فیض ہمیشہ کشادہ دل رہے۔ دراصل ایسے لوگ، ایسا ماحول، کچھ انوکھی آوازوں کا مرکب بن جاتے ہیں۔ قوالی کے استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ان کی غزلیں ہمیں کہاں تک لے جاتی ہیں یہ صرف سننے والا ہی جانتا ہے۔
تری امید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
بہت سے لوگوں نے ان کی شاعری کو گایا، پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی۔ تاہم جس کی آواز نے فیض صاحب کو پوری دنیا میں متعارف کرایا وہ مہدی حسن صاحب تھے۔ راجستھان کی ریت میں گرم ہونے والی آواز، جس میں فیض کو سن کر فیص اپنے ہو جاتے تھے۔
تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
یا پھر
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
ان غزلوں کو سن کر کون پہلے جیسا رہ سکتا ہے؟ آج نہ نصرت ہے، نہ مہدی حسن اور نہ فیض، لیکن یہ آوازیں ہماری خاموشی کو توڑنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا شاعر کو اپنے ماضی کے بارے میں کہنا چاہئے یا دوسروں کے دکھوں کو بیان کرنا چاہیے؟ فیض کی شاعری اس سوال کا جواب دیتی نظر آتی ہے۔ غمِ جہاں کا حساب کرتے ہوئے کسی کو یاد کرنا یا یہ کہنا کہ ’راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا‘ یہ فیض کا ہی کمال تھا۔ محبت ہو یا بغاوت، دونوں کو حساسیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہا ہوا ادب خاص طور پر غزل اور نظم کی صورت میں سامنے آیا۔ پری خانہ سے لے کر بازار میں بکنے والے مزدور کے گوشت تک ان کی نظریں جاتی ہیں کیونکہ وہ روزگار کے غم تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شاعر کو کب ایسا کہنا چاہیے کہ 'مجھ سے پہلی سی محبت میری محبوب نہ مانگ'۔ اقبال بانو نے ان کی مشہور نظم 'ہم دیکھیں گے، لازم ہے کے ہم بھی دیکھیں گے' کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ یہ قصہ ہے کہ 1985 میں جب ضیاء الحق کے فوجی دور میں ساڑی پر پابندی لگائی گئی تو اقبال بانو نے ساڑی پہن کر 50 ہزار لوگوں کے سامنے یہی نظم گائی تھی۔
'نقش فریادی' 'دست صبا'، 'زندگی نامہ'، 'دست تہہ سنگ'، 'میرے دل میرے مسافر'، 'سر وادی سینا' جیسے مجموعوں کے مصنف فیض اردو، ہندی، عربی، انگریزی اور روسی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ادب کی ایک نئی نسل بالخصوص غزل اور نظم ان سے فیض حاصل کر رہی ہے۔ ان کے تقریباً تمام مداحوں کا خیال ہے کہ اگر وہ بڑے شاعر نہ بھی ہوتے تو بھی اپنی کشادگی اور دیانتداری کی وجہ سے ایک عظیم انسان ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں : اعظم خان کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ سراسر زیادتی ہے... ظفر آغا
فیض احمد فیضؔ کی مشہور نظم:
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔