ناانصافی کے خلاف لکھنے والا قلمکار محمود شام

محمود شام کا حقیقی نام محمد طارق محمود ہے۔ وہ ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے صنعتی شہر راجپورہ میں 5 فروری 1940 کو ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صوفی شیر محمد ایک سند یافتہ طبیب تھے

<div class="paragraphs"><p>محمود شام</p></div>

محمود شام

user

جمال عباس فہمی

آج ایک ایسے قلمکار کا ذکر مقصود ہے جو ایک بے باک صحافی، بیدار مغز شاعر، سیاسی فکشن نگار، مترجم، سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار ہے, جس کی کچھ کتابیں حکمراں طبقے کو اتنی ناگوار گزریں کہ ان پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کی بے باکانہ صحافت سے حکمراں طبقہ اتنا بد حواس ہوا کہ اس کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس نے حکمرانوں کی طاقت کا جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس کو جو صحیح لگا اس نے لکھا۔ بحیثیت صحافی اس نے بڑے بڑے سیاستدانوں سے انٹرویو کے دوران ان سے چبھنے والے سوال کئے۔ وہ شملہ سمجھوتے جیسے تاریخی موقعے پر موجود تھا۔ جی ہاں وہ بے باک قلمکار شاعر، صحافی اور مصنف محمود شام ہیں۔محمود شام پاکستان کے فعال ترین صحافی ہیں۔ محمود شام کی قلمی فعالیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے انکے خاندانی پس منظر اور تعلیمی اور ادبی سفر پر ایک نظر ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

محمود شام کا حقیقی نام محمد طارق محمود ہے۔ وہ ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے صنعتی شہر راجپورہ میں 5 فروری 1940 کو ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صوفی شیر محمد ایک سند یافتہ طبیب تھے۔ پٹیالہ میں 'ارسطو دوا خانے' کے نام سے ان کا مطب تھا۔ وہ سیاست میں بھی سرگرم تھے۔ کانگریس لیڈر کے طور پر انگریز حکومت کے خلاف تحریک کے دوران جیل بھی گئے۔ وہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ ادبی ذوق رکھتے تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔۔ ہجرت کے بعد پاکستان میں بھی مرتے دم تک سیاست میں سرگرم رہے۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ رہے۔ اگست1947 کے دوسرے ہفتے میں محمود شام کے والدین ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ اس وقت محمود شام کی عمر پانچ برس اور ان کے بھائی خالد مسعود چھ برس کے تھے۔ چار افراد پر مشتمل یہ مختصر سا قافلہ قتل و غارتگری سے بچتا بچاتا ہوا مال گاڑی میں بیٹھ کر انبالہ سے لاہور پہونچا تھا۔ کچھ روز لاہور اور منڈی بہاالدین میں قیام کے بعد جھنگ کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ محمود شام کی بی اے تک کی تعلیم جھنگ میں ہی ہوئی۔ جبکہ لاہور سے انہوں نے فارسی، فلسفے اور انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ صحافت اور شاعری کے میدان میں سرگرم ہو گئے تھے۔ صحافت کی ابتدا اخبارات کے مدیروں کو خطوط لکھنے سے ہوئی۔ والد کی سیاسی بصیرت اور شعری ذوق نے محمود شام کو شاعر اور صحافی بنایا۔


انہوں نے پہلا شعر 1959 میں کہا:

آدمی ہے حباب کی صورت

زندگی اک سراب کی صورت

پہلی غزل ہفت روزہ قندیل میں 1960 میں شائع ہوئی۔ انٹر کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی ان کا کلام ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگا تھا۔

بطور پیشہ انہوں نے صحافت کو اختیار کیا اور پاکستان کے نامور اور فعال ترین صحافی بنے۔ طبیعت میں جرات مندی اور بے باکی تھی تو صحافت بھی بے باکانہ طریقے سے کی۔ انکی عملی صحافت کا آغاز1963 میں ہفت روزہ 'قندیل' میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی پوسٹ سے ہوا۔وہ روزنامہ 'نوائے وقت' کے میگزین ایڈیٹر بھی رہے۔ہفت روزہ 'اخبار جہاں' کے اسسٹنٹ ایڈیٹر،ہفت روزہ 'کہسار' کے ایڈیٹر،چھہ برس تک روزنامہ 'جنگ' کے ایڈیٹر اور طویل عرصہ تک جنگ گروپ کے گروپ ایڈیٹر رہے۔ بطور صحافی اور شاعر محمود شام نے فوجی آمریت بھی دیکھی، مارشل لا بھی دیکھا، جمہوریت بھی دیکھی، جمہوریت کے نام پر بد عنوان اقتدار بھی دیکھا،مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ نا انصافی بھی دیکھی۔ پاکستان کی تقسیم بھی دیکھی۔ ہند پاک جنگ بھی دیکھی۔ ذولفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان شملہ سمجھوتہ بھی دیکھا۔ اقتدار میں فوج کی مداخلت بھی دیکھی، حکومت کے ذریعے مذہبی انتہا پسندوں کی پشت پناہی بھی دیکھی۔ ملکی سیاستدانوں پر امریکہ کا اثر و رسوخ بھی دیکھا۔ سیاست دانوں کا کرپشن بھی دیکھا، علاقائی عصبیت بھی دیکھی، مذہبی جنون بھی دیکھا اور مسلکی منافرت اور تشدد بھی دیکھا۔ اقتدار مخالف آوازوں کو دبانے کی حرکتیں بھی دیکھیں۔

انہوں نے سب حالات پر بے لاگ کالم بھی لکھے، مضامین بھی لکھے اور اداریے بھی لکھے اور شاعری بھی کی۔ اظہار رائے کی آزادی کے حق کی حمایت کرنے پر حکومت کی ناراضگی بھی جھیلی اور قید و بند کی صعودتیں بھی برداشت کیں لیکن حق گوئی و بے باکی کی اپنی روش نہیں بدلی۔ محمود شام کی قلمی فعالیت سیاست دانوں اور مذہبی لیڈروں کی اخلاقی گراوٹ، قبیلائی ذہنیت، مسلکی منافرت اور کرپشن کے خلاف احتجاج سے عبارت ہے۔ محمود شام نے 'شب بخیر' کے عنوان سے منفرد طرز کا ناول بھی لکھا۔ جسے سیاسی فکشن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس ناول میں سیاسی اور سرکاری حلقوں میں رات میں سجنے والی محفلوں کی منظر کشی ہے جہاں ملکی وسائل کے سودے ہوتے ہیں۔ قیمتی سرکاری پروجیکٹوں کی بندر باٹ ہوتی ہے۔جہاں شراب کے جاموں کی گردش کے ساتھ عوام کے مقدروں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس سیاسی فکشن کی خوبی یہ ہیکہ مکالموں کی مدد سے پوری کہانی کہہ دی گئی ہے۔

ایک پارٹی کا منظر دیکھئے:

’کہاں ہیں تمہارے چیف منسٹر ۔۔ بیگم سرخاب

بس آ ہی رہے ہیں۔ ابھی فون آیا تھا۔ آپ کچھ اور لیجئے

سلیمان صاحب ویسے بیگم سرخاب میزبان بہت اچھی ہیں۔ کیا کچھ سجایا ہوا ہے۔


ہاں رضا صاحب، یہ اپنے اپنے Contacts کی بات ہے۔ پورے شہر میں اس وقت shortage ہے۔ لیکن بیگم سرخاب کے یہاں ہر برانڈ موجود ہے۔ ڈرنکس ہوں یا ڈیشیز۔۔۔ ان کا مزہ بیگم سرخاب کے گھر ہی ہے۔

خیریت ہے رضا صاحب ۔۔ بیگم صاحب کی اتنی تعریفیں۔ کوئی فائل اٹک گئی ہے کیا۔۔

کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ ارشاد صاحب ہم بزنس مینوں کے تو مسائل ہی ایسے ہیں۔آپ افسر لوگ ہیں۔ آپکو ان الجھنوں کا کیا پتہ۔ یہ تو رضا صاحب سے پوچھئے۔۔ انکو contracts لینے میں کیا کیا پینچ لڑانے پڑتے ہیں۔

لیجئے سائرن کی آواز آرہی ہے۔ چیف صاحب آگئے ہیں۔''

شاعر بنیادی طور پر زندگی کو باطن کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔محمود شام کی شاعری میں انسانی درد و الم کو سماجی اور سیاسی پس منظر میں ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔وہ المئے محمود شام کی غزلوں اور نظموں میں صاف پہچانے جاسکتے ہیں جنکی سطح انفرادی بھی ہے اور اجتماعی،قومی اور بین الاقوامی بھی۔ اسکے اظہار میں محمود شام کا لہجہ کہیں غمگین ہے کہیں طنزیہ اور کہیں باغیانہ۔

کھڑے ہیں اب تو وجود و عدم کی سرحد پر

بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا

۔۔۔۔۔

ایک جنگل جس میں انساں کو درندوں سے ہے خوف

ایک جنگل جس میں انساں خود سے ہی سہما ہوا

جو آدمی بھی مکمل نہ بن سکے تھے ابھی

انہیں بھی اب تو میسر ہوا خدا ہونا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی انا کی فصیلیں کبھی ضمیر کا طوق

یہ عمرقید ہے اس سے کہاں رہا ہونا۔

پاکستان میں مذہبی جنون کے نتیجے میں مسلکی نفرت اور تشدد پر محمود شام کی یہ نظم نوحہ بھی ہے اور احتجاج بھی۔

کچے گھروں کو غسل

مکینوں کے خون سے

دیوانہ وار رقص پھر

پورے سکون سے

دیوار و در پہ نقش ہیں

مسلک کی دہشتیں

ذہنوں میں دندناتی ہیں

بد مست وہشتیں

وحدانیت کے نام پہ

مخلوق منقسم

جذبات کی کدال سے

بنیاد منہدم

افکار کی تراش

عقائد کی نوک سے

کیا نسل اگ رہی ہے

ہدایت کی کوکھ سے


۔۔۔۔

جب محمود شام انسان سے انسان کی دشمنی، لاقانونیت اور حیوانیت دیکھتے ہیں تو انکی شاعری شہر آشوب بن جاتی ہے۔

محلے مملکت در مملکت ہیں

عجب تاریخ میں ہنگام آیا۔

مرا جسم کٹ رہا ہے مرا خون بٹ رہا ہے

مری زخم زخم جاں ہے یہ زمانہ بے خبرہے

کہیں آگ باٹتے ہیں کہیں خون چاٹتے ہیں

نئے شعبدہ گراں ہیں یہ زمانہ بے خبر ہے۔

مرے شہر میں دلوں میں نئی سرحدیں کھنچی ہیں

نئے ممکنہ جہاں سے یہ زمانہ بے خبر ہے۔

محمود شام ایک حساس دل اور خلاق ذہن کے شاعر ہیں۔ گرد و پیش کی زندگی سے متاثر ہوتے ہیں اور اسی سے اپنی شاعری کے موضوعات، اشارات اور علامات اخز کرتے ہیں۔ انکی ایک طویل نظم 'کارڈیو سپازم' اسکی بہترین مثال ہے۔ انہیں 'کارڈیو سپازم' نام کی بیماری لاحق ہوئی اس میں کوئی غزا حلق سے اتر کر معدے تک نہیں پہینچ پاتی۔ انہوں نے اپنی اس بیماری کے پس منظر میں حکام کی بد عنوانیوں کو دیکھا۔ جہاں خوشیاں، آسائشیں اور مراعات سماج کے اعلیٰ طبقات اور امیروں تک ہی پہونچ پاتی ہیں عوام ان سے محروم رہتے ہیں۔

محمود شام کے یہ اشعار بہت مقبول ہیں۔

آنکھ رکھتا تھا کھلی اور طبیعت موزوں

تجربے دوسرے کرتے تھے سنورتا میں تھا

۔۔۔۔۔

وہ خامشی ہیکہ سب ہو گئے ہیں پتھر کے

یقیں نہ تو کسی کو پکار کر دیکھو

۔۔۔

مرے حساب سے پورے نہیں ہیں سر اب بھی

پھر ایک بار دھڑوں کو شمار کر دیکھو

۔۔

ہرایک گھر سے پکارے گی بے گھری پھر بھی

شمار سارے گھروں کو ہزار کر دیکھو

۔۔۔

شہر سے رہتی ہے اک جنگ مسلسل دن بھر

شہر جب ہانپنے لگتا ہے تو گھر جاتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔